آج آپ نے اپنے شوہرِنامدار احمد شمیم مرحوم کی ایک غزل فیس بک پر پوسٹ کی ہے جسے پڑھ کر میری آنکھیں پر نم ہو گئیں، پرانی یادوں اور ان سے ملاقاتوں نے انگڑائی لی، میں اپنی واٹس ایپ اور فیس بک پر ان کی اس غزل کا مطلع اور مقطع اپنے قارئین کے لیے اس مقصد کے ساتھ پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ نئی نسل یہ جان سکے کہ وطن کے لیے کیا کیا قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور کیا کیا صدمے جھیلنے پڑتے ہیں۔ احمد شمیم کہتے ہیں!
ہم نادار نہیں ہیں ،ہم کو حبِ وطن جاگیر بہت
حبِ وطن دو لفظ مگر، اِن لفظوں کی تفسیر بہت
جب ست رنگی آوازوں کی برکھا برسے بستی پر
سارے زخم ہرے ہو جائیں ، یاد آئے کشمیر بہت
مرحوم و مغفور نابغ روزگار شخصیت تھے۔ شاعر، ادیب اور دانشور تھے، انگریزی ، اردو اور کشمیری پر کامل عبور تھا۔ میرے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے اور میرے والد قبلہ تحسین جعفری مرحوم کے دوست تھے۔ آپ کی یہ غزل بہت مشہور و مقبول ہے۔ آپ زاد کشمیر تھے اور کشمیر کی آزادی کے عظیم علمبردار اور نقیب تھے۔ جوانی میں کشمیر سے ہجرت کی۔ تا دمِ مرگ کشمیر کی اور والدین کی یادوں نے انہیں بہت دکھی بنایا۔ ماں کی یاد میں ماہء بے آب کی طرح تڑپتے رہے۔ ان کی شاعری میں کشمیر اور بچھڑے ہوئے احباب کا شدید غم ملتا ہے جسے وہ اپنے ساتھ لحد میں لے گئے۔ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے لحد میں بھی بے چین ہوں گے۔ میر تقی میر نے شاید انہی کے لیے کہا تھا۔
تنگ ہو جائے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر
گر ہمیں زیرِ زمیں سونپا دلِ نالاں سمیت
اللہ پاک مرحوم کی مغفرت کرے اور کشمیر کی آزادی کا جو خواب وہ دیکھتے تھے اس کے تعبیرہمیں ملے۔ آمین
٭٭٭