آٹھ فروری کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے جس میں سیاسی پارٹیوں کے علاوہ لاتعداد آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جس میں زیادہ تر کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جس پر الیکشن کمیشن کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزیوں پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی تھی جن کے اراکین نے آزاد امیدواروں کی شکل میں انتخابات میں حصہ لیا ہے جس کے بعد سوال پیدا ہوچکا ہے یہ کامیاب آزاد امیدوار کس طرح پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں حصہ لیں گے۔ کیا ان میں سے بعض ممبران دوسری سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوجائیں گے جو بے لگام اور بے قابو ہیں جن پر کوئی قانونی اورآئینی پابندیاں عائد نہیں ہیں کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو جوائن نہیں کرسکتے ہیں جن کے لئے تازہ خبروں کے مطابق سوتیلی ماں یعنی کہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی ڈھونڈہی جارہی ہے جس نے موجودہ انتخابات میں حصہ لیا ہو چونکہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار آئندہ خصوصی نشستوں پر خواتین اور غیر مسلم ممبران کو چن نہیں سکتے ہیں۔ جو صرف اور صرف سیاسی پارٹیوں کے لیے مختص ہیں کہ اب قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد266کے بعد336ہوجائے گی جس کے لئے قومی اسمبلی کے ممبران کو ساٹھ خواتین اور دس غیر مسلم نمائندے منتخب کرنا ہونگے تب موجودہ قومی اسمبلی مکمل ہوگی اسی طرح صوبوں کی پارلیمنٹوں کو بھی خواتین اور غیر مسلم نمائندے صوبائی اسمبلی کے لئے منتخب کرنا ہونگے جس میں آزاد ممبران حصہ نہیں لے سکتے ہیں۔ تاہم آزاد بچوں کے لئے کوئی سوتیلی ماں ڈھونڈہی جارہی ہے جس میں اب تک شیعہ تنظیم وحدت المسلمین اور پی ٹی آئی نظریاتی کا نام سامنے آیا ہے کہ وہ بچے کھچے آزاد بچوں کو اڈونپ کریں گی جس کے لیے وقت بہت کم ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکشن کے بعد تین دن میں آزاد نمائندگان کو کوئی سیاسی پارٹی جوائن کرنے کا وقت درکار ہوگا ورنہ اس مدت کے بعد آزاد نمائندگان پارلیمنٹ کی مدت پورے کرنے تک آزاد پنسھی رہیں گے مزید برآں پختونخواہ میں آزادی کی سب سے بڑی تعداد ہے تو وہ شاید آزاد پختون پارلیمنٹ بنائیں گے جو کسی بھی وقت آزاد پختونستان کا نام بھی پیش کرسکتے ہیں جو پختونخواہ کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ بلوچستان، پنجاب، سندھ کی طرح پختونوں کا علاقہ پختونستان ہونا چاہیے جس کو منفی رویوں نے غداری سے منسلک کردیا تھا۔ بہرکیف نون بنے گا وزیراعظم کا چرچا جاری ہے کہ آزادوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سب سے بڑی سیاسی پارٹی مسلم لیگ نون کے ممبران منتخب ہو کر سامنے آئے ہیں۔ جن کی تعداد جنرل ممبران اب تک80کے قریب ہے جس میں آزاد نمائندگان بھی شامل ہو رہے ہیں۔ یا ہونا چاہتے ہیں یا پھر خصوصی نشستوں کی نامزدگی باقی ہے۔ دوسرے نمبر پر پی پی پی ہے جن کی تعداد ساٹھ کے قریب ہے جبکہ تیسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم ہے جن کی تعداد2018کے الگ بھگ ہے۔ باقی بھی سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان ہیں جس سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون آسانی سے حکومت بنا لے گی جبکہ پی پی پی بھی کوشاں ہیں جو آزادوں پر انحصار کر رہی ہے کہ آزاد پنسھی کہاں اڑ کر جاتے ہیں۔جس کافیصلہ بہت جلد ہوجائے گا۔ کہ ان کا اصل مالک کیا فیصلہ کرتا ہے جو انہیں اتنی تعداد میں لایا ہے حالانکہ میں ماضی میں جب اسٹیبلشمنٹ جب کبھی سے پارٹی کے خلاف ہوا کرتی تھی تو وہ اس کا حشر پی پی پی اور مسلم لیگ نون جیسا ہوتا تھا کہ وہ پندرہ سے زیادہ سیٹیں نہیں لے پاتی تھیں یہ پہلا موقع ہے کہ ظاہر ”اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جو اتنی بڑی تعداد کے باوجود دھاندلی کا الزامات عائد کر رہے ہیں۔ فرض کریں دھاندلی ہوئی ہے تو پھر مسلم لیگ نون پی پی پی، جمعیت السلام کو اکثریت ملتی جو کسی بھی پارٹی کی محتاج نہ ہوتیں لہذا دھاندلی کا سب سے بڑا ثبوت آزادوں میں ملتا ہے جو بنا جلسے جلوس اور ایجنڈے منتخب ہوئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ فرشتوں نے بھی انہیں ووٹ ڈالے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ دیکھ نہیں پائی ہے جو اتنی بڑی تعداد میں جیت چکے ہیں۔ مگر وہ واقعی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ میں تو پھر آزاد رہیں کسی بھی پارٹی میں شامل نہ ہوں تو سب پتہ چل جائیگا۔ بہرحال آٹھ فروری کو انتخابات کا خاتمہ ہوا جس کی وجہ سے کئی ماہ سے ایک غیر منتخب نگران حکومت اور صدر نامزد تھے جن کی اتنی طویل مدت نگران حکومت اور منتخب صدر کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ پاکستان جو ا یک مسائلستان بن چکا ہے وہ کیسے اور کون حل کریگا۔ جس کی حالت ایک مرگ بستر پر لیٹے ہوئے مریض کی طرح ہے۔ جس کو مصنوعی طریقوں سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں جوبھی حکومت بنے اسے سب سے پہلے اڑوس پڑوس میں تجارت کھولنا ہوگی تاکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا آغاز ہو جو مکمل طور پر بند ہے جس کے لئے قومی اتحاد اور اتفاق کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ملک ہے تو یہ سب ادارے اور حکمران ہیں جن کے لئے اپنی اپنی قربانیاں پیش کرنا ہونگی۔ اداروں اور عہدیداروں اور اہلکاروں کو اپنی اپنی مہم جوئیاں بند کرناہونگی۔ بس بہت ہوچکا ہے۔
٭٭٭٭