وقت کی ضرورت اتحاد!!!

0
48
جاوید رانا

قارئین کرام جب ہم یہ سطور تحریر کر رہے ہیں، دسمبر کی وہ دلدوز تاریخ یاد آگئی ہے جب وطن عزیز کو دوبار ناقابل تلافی صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ 16 دسمبر 1970ء کو ملک کو دولخت کر دیا گیا اور پاکستان آدھا ہو گیا، 2014ء میں اے پی ایس پر خون کی ہولی کھیلی گئی اور معصوم پھولوں کی بہت بڑی شہادت سے نہ صرف ساری قوم کو کربناک و لازوال دُکھ میں مبتلا کرنے کیساتھ ملک کے مستقبل پر کاری ضرب لگائی گئی۔ ان قیامت خیز لمحات کا پس منظر جو کچھ بھی رہا ،یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ دونوں ناقابل فراموش سانحات کے تناظر میں عوامی اکثریت کو نظر انداز کر کے دشمن قوتوں کے ارادوں کو تقویت دے کر اپنے مقاصد پر عمل کیا گیا اور نتائج وطن عزیز و عوام کیلئے حد درجہ تکلیف و شرمندی کا سبب بنے۔ یہ سب کچھ بلا ارادہ ہوا یا نہیں، اس کی تفصیل میں جانے سے سوائے پچھتاوے اور دکھ کے کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ افسوس اس بات پر مزید بڑھ جاتا ہے کہ دوبار قیامت کا سامنا کرنے کے باوجود بھی متعلقہ کرداروں کو عقل نہیں آئی اور آج بھی پسند و ناپسند اور عوامی اکثریت کو نظر انداز کرنے کا کھیل جاری ہے۔
گزشتہ ڈھائی برسوں سے پسند و ناپسند اور عوامی اکثریت کے رائے کوجھٹلانے کا جو کھیل کھیلے جانے کا سلسلہ جاری ہے اس پر لکھ لکھ کر اور اپنی معروضات کے طاقت نہیں مفاہمت ملکی سالمیت و خوشحالی کا حل ہے تھک چکے ہیں لیکن ایسا لگتاہے کہ زور آوروں کو اپنی طاقت پر بہت اعتماد ہے اور انہیں ملکی سالمیت و عوامی شعور کا کوئی خیال نہیں۔ یاد رہے کہ طاقت کا ماخذ صرف وہ رب تعالیٰ ہے جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ حق و باطل کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی اسی ذات کریم کے پاس ہے۔ دنیاوی اقتدار و اختیار کا حوالہ انسانوں اور گروہوں بلکہ قوموں کی بہبود و فلاح سے مربوط ہے اور جب حکمران اس نقطہ سے انحراف اور نا انصافی کا وطیرہ اپنائیں تو اس کا نتیجہ زوال و تحقیر کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔ فرعون، نمرود، سکندر، دارا اور یزید و تاتاریوں کی مثالیں تو چھوڑیں، تازہ ترین مثال تو شام کے حافظ و بشار الاسد کی ہے جنہوں نے نصف صدی تک آمریت، ظلم و بربریت سے عوام کو کچلے رکھا لیکن بالآخر عوام کے سیلاب کے آگے تنکے کی طرح بہہ گئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا انجام امریکہ و اسرائیل کے شرق اوسط پر حکمرانی کے ایجنڈے کے تناظر میں ہوا لیکن کیا یہ حقیقت بھی نہیں کہ دنیائے عرب کی طاقتور ترین شامی فوج بھی نہ بچا سکی اور پسپائی اختیار کر گئی اور کیا یہ بھی سچ نہیں کہ شامی باغیوں اور عوام کی جدوجہد اس انقلاب کا سبب اور اسرائیلی پیش قدمی ”اسد ایرا” کے خاتمے کی اصل وجہ بنی۔ بشار الاسد اپنے عوام کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن چکا تھا اور عوام میں اس سے نفرت بالآخر رنگ لائی۔ کیا یہی سب بنگلہ دیش میں بھی نہیں ہو چکا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ان حالات کو جانتے سمجھتے ہوئے اور عالمی منظر نامے سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ہماری مقتدرہ نے ذاتی اختلاف کو ادارتی محاذ آرائی کا سبب بنا رکھا ہے اور عمران، پی ٹی آئی اور عوام کیخلاف ظلم، بربریت، فسطائیت کا ہر طریقہ اپنا رکھا ہے بلکہ عدالتی فیصلوں اور احکامات کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ڈی چوک کیس میں رہا کئے جانے والوں کی انسداد دہشتگردی عدالت سے رہائی پانے والوں کی گرفتاری حتیٰ کہ متعلقہ اے ٹی سی جج کے اپنے فیصلے کے بعد رہائی پانے والوں کے دوبارہ گرفتار نہ ہونے کو یقینی بنانے کے پولیس کی گاڑیوں کے پاس کھڑے ہونا کیا انصاف کی توہین نہیں ہے۔ بات یہیں تک نہیں عمران خان کی طرف سے حکومت سے مذاکرات کے اعلان کو اس لئے رد کر دیا گیا ہے کہ مقتدرین اس پر راضی نہیں اور غیر مقبول و غیر نمائندہ حکومت کی مجال نہیں کہ وہ بغیر اجازت کوئی اقدام کر سکے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں بدترین عدم استحکام نظر آرہا ہے، پی ٹی آئی ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتیں بھی ریاست اور حکومت سے نالاں ہی نہیں بیزار نظر آتی ہیں۔ ایک جانب مولانا پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے شریعت بل کے صدر کی جانب سے رد پر ناراض ہیں تو دوسری جانب پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم حکومت سے شکوہ کناں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا بھونپو فیصل واوڈا عمران اور بشریٰ بی بی کیخلاف مغلظات میں مصروف ہے تو میڈیا حقائق کے اظہار کے برعکس فریقین کا پٹھو بنا ہوا ہے۔ عوام بے یقینی اور نا اُمیدی کے بھنور میں ڈوبے ہیں غرض افواہوں اور پریشانیوں کا وہ طوفان ہے جو کسی بھی طرح نہ ملک کیلئے مفید ہے اور نہ قوم کیلئے سازگار ہے بقول شاعر!
کچھ نظر نہیں آتا ہر طرف اندھیرے ہیں
ہماری خصوصاً موجودہ عالمی منظر نامے میں ہونیوالے حالات و واقعات کے تناظر میں صرف یہی درخواست ہے ،خدارا ذاتی عناد و اختلاف سے گریز کرتے ہوئے ملک اور عوام کے حوالے سے یکجہتی، رواداری اور صلح جوئی کو اپنایا جائے یہی واحد راستہ ہے امن و سکون اور عزت و منزلت کا ورنہ ذلت و رسوائی کے سواء کچھ بھی ہاتھ ہیں آنا اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہم جہاں بھی ہیں جو بھی ہیں ہمارا اولین فریضہ وطن اور عوام سے محبت ہی ہے۔ علامہ نے صحیح کہا ہے!
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here