جمہوری ڈکٹیٹر شپ یا فاشسٹ جمہوری !!!

0
123
شبیر گُل

اللہ کی پناہ کیسے کیسے مسخرے حکمران ہیں، جھوٹی خبروں پر پانچ سال جیل ، جھوٹے وعدوں پر پانچ سال اقتدار،اپنا یوٹرن اور ڈبلیو ٹرن ،سبحان اللہ۔کیا یہ قانون ریاست مدینہ کی نفی نہیں جس میں آوازکا گلہ دبایا جاسکے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن آپس میں دشمنیاں ڈال لیتے ہیں۔ لیکن حکمران اور اپوزیشن کل کے دہشت گردوں اور ڈاکوں کے اشتراک سے حکومت بھی بناتے ہیں۔ اور کرپٹ قرار دئیے گئے عناصر کے ساتھ بیٹھ بھی لیتے ہیں۔ اسلئے ان شعبدہ باز سیاسی مداریوں کے لئے اپنے تعلقات دا ئوپر نہیں لگانے چاہئیں۔
پی ٹی آئی کے وزیر اور مشیر مغلظات بکتے،کیچڑ اُچھالتے،گندی اور ذومعنی اخلاقی روایات سے عاری ،اسلام کی قدریں پامال کرتے ہوئے ، بے لگام گفتگو ۔ٹی وی پر لیکچر جاڑنے والے ایکدوسرے کو ماں بہن کی گالیاں بک رہے ہوتے ہیں۔اچانک تھپڑوں کی بارش اور لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔وزرا،مشیر ،اپوزیشن،سیاسی لوگ،صحافی،ٹی وی اینکرز انتہائی بیہودہ ،غیر اخلاقی گفتگو کرتے ہیں۔اخلاقی لیول یہ ہے کہ ٹی وی پر بیٹھ انتہائی غلیظ گفتگو کی جاتی ہے جس میں بے شرم اور بے حیا خواتین اینکرز بھی پورا حصہ ڈالتی ہیں۔ ان بے حیاں کو یہ بھی شرم نہیں کہ انہی کی بہو بیٹیاں گھر بیٹھ کر پروگرام سن رہی ہوں گی۔سیاست سے صحافت تک سیاسی ورکر سے لیکر انتظامیہ سب کے لئے پارلیمنٹ کے فلور پر کوڈ آف conducted طے ہونا چاہئے ۔جو سب پر لاگوہو۔نا کہ اسے سیاسی مخالفین کی خلاف استعمال کیا جائے۔بحیثیت مسلمان ہماری اخلاقی قدریں اور تہذیبی روایات ہیں جو زندگی کے کسی شعبہ میں نظر نہیں آتیں۔ہر شخص اپنی Egos کی حصار میں قید ہے۔انا پرستی نے معاشرتی بگاڑ پیدا کردیا ہے،جوں جوںہم تعلیم یافتہ ہو رہے ہیں توں توں جنونیت اور حوانیت کیطرف بڑھ رہے ہیں۔ جن ٹٹ پونجیوں کو گھر والے نہیں پہچانتے تھے آج وہ قوم یوتھ لیڈر بنے پھرتے ہیں ۔ اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ کو دھمکاتے ہیں۔ موجودہ ریاست مدینہ نے مستقبل کے یہی معمار متعارف کرائے ہیں۔ آپ خود ہر ایک پر تنقید کریں۔ لیکن دوسری کی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے ھوں ۔اسے کہتے ہیں۔ مٹھا مٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو ۔معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان پروان چڑھ رہاہے ۔ جس میں مذہبی رہنما سیاسی رہنما صحافی پولیٹکل ورکر سبھی ملوث ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے ایک کالم مشرکانہ عقائد پر لکھا۔ جس میں پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب واہیات اور جھوٹے قصے اور انکے ہاتھوں مردہ بندے زندہ کرنے پر لکھا تو ایک مولوی صاحب کو بہت مروڑ اٹھا۔ تو مولوی قمر صاحب (المعروف مفتی) نے میرے خلاف انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی۔یہ وہ مفتی صاحب ہیں جنکی وجہ سے پولیس جوتوں اور کتوں سمیت مسجد میں گھس گئی۔ تین ماہ مسجد بند رہی۔اب ایسے مولوی اخلاقیات کا درس دیں تو بہت عجیب معلوم ہوتاہے۔انہوں نے برانکس کی مدنی مسجد میں بھی یہی حرکت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بفضل تعالیٰ میں نے انکی یہ شیطانیت کامیاب نہیںہونے دی تھی۔ قارئین! میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عبدالقادر جیلانی مردہ زندہ کرسکتے ہیں؟ میں نے اس کالم میں کوکب نورانی کی جھوٹی اور من گھڑت باتیں کوڈ کی تھیں۔ قابل احترام معروف عالم دین علامہ مدثر حسین نقشبندی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ کالم سخت ہے اسکی تردید کریں۔نیویارک اور برانکس کی انتہائی محترم شخصیت میرے بڑے بھائی ملک خالد اعوان صاحب نے بھی اس کالم پر مجھے ڈانٹ پلائی ۔ ملک صاحب کی کمیونٹی کے لئے جتنی خدمات ہیں، شاید ہی کسی اور شخص کی اتنی خدمات ہوں ۔ایک باعمل انسان ہیں،میں اس پر مزید کچھ لکھنا نہیں چاہتا تھا۔
علامہ مدثر صاحب نے معوذ صدیقی سے گلہ کیا میں نے سمجھا اسکی وضاحت کردوں۔مفتی صاحب جیسے مذہب کے علمبردار منبر پر اتحاد امت کی بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پر قرآن و سنت کے خلاف نظر آتے ہیں،ہمارے کچھ علما بھی مذہب سے زیادہ جمہوری نظر آتے ہیں۔جمہوریت کے علمبردار جب اپوزیشن میں ہوں تو میڈیا کی آزادی کے گن گاتے ہیں، اقتدار میں آتے ہی تنقید کو برداشت نہیں کر پاتے ۔ پرائیوٹ میڈیا کے سہارے حکومت میں آنے والے عمران خان آج پرائیویٹ میڈیا کا گلہ گھونٹا چاہتے ہیں اس ہیبت ناک لا میں نہ وارنٹ ہے ۔
نہ ضمانت ہے۔ نہ آزادی ہے۔ موجودہ حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے آرڈیننس پاس کیا ہے جس میں حکومت کے خلاف تنقید کو لگام دی گئی ہے ۔ زبان بندی کردی گئی ہے۔ سخت احکامات متعارف کرائے گئے ہیں۔ایف آئی اے کو ناقابل یقین اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔پولیس جو چاہے کرے ۔آرڈیننس کے اجرا کے لئے کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا تو حکومت حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس کیوں لائی؟
پیکا قانون کا مقصد ۔ جعلی خبروں کی روک تھام ہے یا صحافیوں کی زبان بندی؟
قومی اسمبلی کا سیشن جاری تھا تو حکومت آرڈی نینس کیوں لائی؟
کیا پیکا ترمیمی آرڈیننس صحافیوں کی آواز دبانے کے لئے لئے لایاجارہاہے۔؟
آئین جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا مطالبہ کرتاہے۔
صحافیوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں نافذ کردی گئیں۔پانچ سال کی سخت سزائیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔قانون سازی سے بچنے کے لئے سیشن کے ختم ہونے کا انتظار کیاگیا۔ایسا کبھی ڈکٹیٹروں کے دور میں بھی نہ ہوسکا۔ اپوزیشن میں کنٹینر پر بیٹھے حکومت کو تنقید کرنے والے آج تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس پر تنقید کو بلاجواز سمجھ رہی ہے۔
کیا سیاست جھوٹ یا منافقت ہوتی ہے؟
کیا سیاست میں کوئی کریکٹر نہیںہوتا؟
کیا سیاست میں کوئی Ethics اور morality نہیں ہوتی؟
کیا سیاست میں کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں ؟
کیا سیاست میں کوئی آنر یا عزت نہیںہوتی؟
کل جن کو گالی گلوچ کرتے تھے ، آج انہی سے مدد مانگتے پھر رہے ہیں ؟
وزیراعظم تھوڑا تھوڑا گھبرائے ہوئے ہیں اسی کئے چار وزارتوں کی پیش کش کردی گئی ہے۔؟
کیا ایسی طرز جمہوریت کونظریاتی سیاست اور دیانتداری کہتے ہیں؟
کیا سیاست میں اخلاقی رواداری ختم ہو چکی ہے؟
گھروں کا کلچر یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔
یوتھ کو بدمعاش بنادیا گیاہے۔
عمران خان کو بیس سال زبان
کرکٹ ہو یا اپوزیشن ۔اقتدارہو یا کینسر ہاسپیٹل ۔ ڈکٹیٹروں کی ذہنیت اور سوچ کا عمران خان نے
جمہوری اقدار کی کبھی پاسداری نہیں کی ۔
کیا مین اسٹریم میڈیا پر غیر محتاط الفاظ کا چنا سوشل میڈیا کی وجہ سے سامنے آیا ہے؟
عام ناظرین مین سٹریم میڈیا اور سائل میڈیا کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔
کیا سوشل میڈیا پر بدتمیزی کی انتہا کرنے والے موجودہ حکمران میڈیا پر الزام لگانے سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔؟
پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم نے جس کلچر کو رواج دیا اس بے معاشرے کی اخلاقی قدریں برباد کردیں۔
مریم کی سوشل میڈیا ٹیم نے جس طرح فوج کو ٹارگٹ کیا نفرت انگیزی کی بنیاد رکھی ،اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
دہشت گرد ایم کیو ایم کی میڈیا ٹیم نے خوف و دہشت اور گندگی کو رواج دیا ۔ اس نے معاشرتی ہیجان پیدا ہے۔
عمران خان صاحب انہی لوگوں کے ساتھ حکومت میں بیٹھے ہیں جن لوگوں کے خلاف انہوں نے بائیس سال انکے بقول جہاد کیا،جدوجہد کی، خواہ وہ الیکٹیبل ہوں یا آزاد ممبرز۔وہ ایم کیو ایم ھو (ق)لیگ، وہ جی ڈی اے ہو یا چپڑاسی شیخ رشید صاحب، جن کو چپڑاسی کہتے تھے ، جنہیں ڈاکو اور دہشت گرد کہتے تھے ، جنہیں چور اور غدار کہتے تھے۔
کیا اقتدار میں آنے کے بعد ان کا نظریہ بدل گیا ہے یا انہوں نے چوروں ، ڈاکوں ، غداروں اور دہشت گردوں کو کلین چٹ دے دی ہے۔ ؟
کیا عمران خان پہلے جھوٹا تھا یا اب جھوٹ بول رہے ہیں۔ ؟
طبل چیے اور مالشیے اقتدار میں آچکے ہیں ۔ یوتھیے ۔ آجکل مراسیوں کیطرح ۔ مہنگائی کے ہاتھوں اپنی تنبی اترنے پر چوہدری جی تواڈی کیا بات اے۔کی تسبح پڑھتے نہیں تھکتے۔ گڈ گورنس یہ ہے کہ اکتوبر سے اب تک اڑتیس ارب کی دالیں باہر سے منگوائیں ہیں۔زراعت کابیڑا غرق ہو چکا ہے۔
ہر چیز پر کئی گناٹیکس بڑھا دیا گیاہے۔
یوتھیے اسے بھی ماضی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ کچھ لوگ مجبورا پی ٹی آئی میں پھنس گئے ہیں چونکہ وہ بیڑیاں جلا کر تحریک انصاف میں آئی تھے۔ اب ان کے لئے کوئی Way out نہیں ہے۔جیسے عامر لیاقت ۔ وہ الطاف سے محبت کرتے ہیں اور عمران سے بھی یعنی ایک میان میں دو تلواریں۔
ایسے لوگ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ ایسے ہی چند صحافی پی ٹی آئی کی گردان پڑھتے ہیں۔ اقتدار کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھنے والے پیر عمران خان صاحب ۔اقتدار بچانے کے لئے چوروں ڈاکوئوں چپٹراسیوں اور دہشت گردوں کی منت و سماجت کررہے ہیں۔آئندہ کچھ دنوں میں ایم کیو ایم کے ہیڈ کواٹر اور چوہدریوں کے ڈیرہ پر خاضری کی خبریں بھی زبان زد عام ہیں۔آئندہ کچھ روز میں جہانگیر ترین سے ہاتھ ملایا جاسکتا ہے تاکہ اقتدار کے خاتمے پر جہازکے چوٹے لیئے جا سکیں۔ طلبہ یونینز پر پابندی سے سیاسی کلچر میں گندگی ۔مولا جٹ اور نوری نت پیدا ہوچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اورحکومتی ارکان کا ایکدوسرے پر کرسیوں سے حملہ نے ہمارے سیاسی کلچر کی متعفن شدہ بدبودار لاش کو ایکسپوز کردیا۔
ایک طرف عمران خان کو کوسنے والے ۔دوسری طرف چینی چور ، اے ٹی ایم جہانگیر ترین سے اپوزیشن خفیہ ملاقاتیں کر رہی ہے۔شہباز شریف چودہ سال بعد چوہدریوں کے گھر جا پہنچے ہیں۔
ایم کیوایم 90 پر آپریشن کا ذمہ دار نواز شریف کو سمجھتی تھی اور اب مسلم لیگ کے مرکز ملاقات کے لئے پہنچ گئے ہیں۔
اقتدار کے لئے تمام اصول و ضوابط کوپس پشت ڈال دیا گیاہے۔
کیا عوام کے لئے بھی اپنی انا کو اسطرح قربان کیا جا سکتا ہے۔؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here