قارئین وطن! میرے پچھلے کالم پر بہت سے مہربان قارئین نے کہا کہ ”اپنا ہتھ ہولا رکھو” ایک ہماری بہن نے تو یہ لکھا کہ جب باجوہ اورفیض حمید عمران کے کرم فرما تھے تو اس وقت آپ کہاں تھے ؟ کوئی بتائے کہ میں نے ایسا کیا لکھ دیا یہی لکھا ہے کہ جرنل عاصم اور قاضی فائیز عیسیٰ کی آگ سے پاکستان کو بچائیں ،اس میں ایسا برُا میں نے کیا لکھ دیاجو دیکھ رہا ہوں اسی کو قلم بند کیا ہے بقول میرے مرشد علامہ اقبال!
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نہ خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند
میں نے اور میریپیارے قارئین نے تو قائید اعظم کے پاکستان پر مافیاں کا اقتدار براجمان نہیں کیا جرنل عاصم اور قاضی کی مہربانیاں ہیں تو میں نے کونسا جھوٹ لکھا ہے تو مہربان کیوں کہتے ہیں کہ ہتھ ہولا رکھو مجھے علامہ عزیز انصاری گجرانوالہ کے مشہور سیاسی لیڈر کا ایک شعر یاد آرہا ہے !
کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
ہم لوگ نواں گر ہیں ہمیں ازنِ نوا دو
میں اپنے قارئین پر واضع کردوں کہ میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی عمران خان سے میں پچاس سالہ اپنی سیاسی زندگی کی روشنی میں صرف اس کی جرات رندانہ کا فین ہوں کہ اس نے مافیہ کے بتوں کو للکارا ہے میں نے اپنی پیٹھ پر دس سال کی عمر میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کا پوسٹر لگاتیہوئے ایوبی آمریت کا ڈنڈا کھایا ہے تو اس سے میری سیاسی سوچ اور فکر کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔ میریمرحوم والد سردار محمد ظفراللہ ایڈوکیٹ نے گیارہ مہینے جمہوریت کی آبیاری کے لئے ایوبی جیل کاٹی اور اپنی لیڈر مادرِ ملت کے لاہور میں پولنگ ایجنٹ تھے میں استخوان فروشی کا قائیل نہیں ہوں میں نے آمروں اور ججوں کی آگ میں جلتے ہوئے پاکستان کو بہت قریب سے دیکھا ہے اب سال کی عمر میں کیا ڈرائیں گے بس کریں-اب پاکستان کو بچانیں کی بات کریں مافیا اور ان کے سہولت کاروں سے ۔
قارئین وطن! چلیں آئیں اپنے بڑوں کی باتیں مانیں اور ہتھ ہولا رکھیں پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگائیں میں نے تو اس وقت ایوب خان زندہ باد کا نعرہ لگایا جب اس نے میری کمر پر ڈنڈا مارا – ہم نے اس وقت ایوب خان زندہ باد کا نعرہ لگایا جب اس نے میرے والد کو مہینے پابند سلاسل کیا ! ہم نے اس وقت جرنل یحی زندہ باد کا نعرہ لگایا جب اس نے ملک دو لخت کر دیا – میں نے جب کراچی میں جرنل نیازی کو لوگوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے دیکھا جرنل نیازی زندہ باد کا نعرہ لگایا ہم نے ہر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والے کرنل سے لے کر سپاہی کو زندہ باد کہا – جب جرنل ضیاالحق نے مارشل لا لگایا تو بھی ہم نے پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگایا – قارئین جب جرنل مشرف نے مارشل لا لگایا اللہ کی قسم میں نے مٹھائی بانٹی کہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے بدمعاشوں سے جان چھڑائی ہے جرنل مشرف زندہ باد جرنل کیانی کے دور میں جب جی ایچ کیو پر حملہ ہوا امریکی ہمارے کیڈٹ کالج کے قریب سے ہماری حراست سے نکال کر اپنا مجرم لے گئے تو ہم نے پاک فوج زندہ باد کا نعرہ مستانہ لگایا اپنی تو عادت ہی بن گئی ہے پاک فوج زندہ باد جہاں اتنے اچھے اچھے کام ہمارے میر سپاہ یوں نے کئے ہیں وہاں مافیا کا راج براجمان کر دیا ہے تو اس چھوٹے سے گناہ پر پاک فوج زندہ باد کا نعرہ تو بنتا ہے –
قارئین وطن! ایک تو میں وطن کی سیاسی زمینی حقائق سے بہت دور ہوں اور نہ ہی میرے اقتدار کے ایوانوں میں چوں اور بلیوں سے گپ شپ کا کوئی سلسلہ ہے اور نہ ہی میں اپنی ایمبیسی اور کونسلیٹ کے پائدان کو چومنے والا ہوں میری تجزیہ نگاری کا سارا درومدار (Empirical observation ) اور سرکاری مال پر چلنے اور دوڑنیں والے وی لاگروں اور اینکروں کی سرکاری پھلجڑیوں کی چنگاریوں سے اخذ کردہ بات چیت سے سر زمین پاکستان پر ہونے والی ہل چل کو تحریر کا حصہ بناتا ہوں وہی لوگ بتاتے ہیں کہ میر سپاہ کیا کر رہا ہے ایک بڑا مشہور وی لاگر میجر حیدر مہدی اور میجر عادل راجہ سے پتا چلتا ہے کہ جرنل عاصم صاحب کس طرح وطن کی سلامتی سے کھیل رہے ہیں ورنہ مجھ جیسے دو ٹکے کی نوکری کرنے والے کو اتنی بڑی بڑی خبریں کہاں سے معلوم ہوں گی دوسرا ہمار چیف قاضی صاحب کے بارے ایم جے ٹیوی کی ٹیم متی اللہ جان ، حسنات ملک دی فیمس صدیق جان سے قاضی فائیز عیسی کی لگائی ہوئی آگ کے بارے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس طرح ایک شخص عمران خان اور اس کی پارٹی کے بغض میں ملک کے عدالتی نظام کو فارم کے پیروں میں روند دیا ہے صرف اپنی ایکسٹینشن کی لالچ میں اگر میں نے ان دانشوروں کے حقائق کی روشنی میں جرنل عاصم اور قاضی کی آگ سے پاکستان کو بچانا چاہئے تو کیا برا کیا اب جو کچھ پاک وطن میں سیاسی کھلواڑ ہو رہا ہے اس پر ہر سوچنے والا کیسے اپنے جذبات پر قابو پا سکتا ہے بقول غالب !
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
٭٭٭