میرے بچو! بیگم صاحبہ! مجھے معاف کر دیجئے گا
چاہتے ،نہ چاہتے اس بیماری میں میں تلخ ہوتا رہا،اب وقت رخصت ہے۔الوداع ،الوداع، اور پھر کلمہ شہادت پڑھتے ،بڑے اطمینان کی کیفیت میں وہ آنکھیں موند گیا۔ ڈیڑھ سال پہلے کی ایک شام جب وہ گھر آیا تو بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔ اسے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اس کے پاس ذیادہ سے ذیادہ ڈیڑھ سال باقی ہے۔ اس کا مرض ناقابل علاج ہے۔ ایسی حالت میں ڈیڑھ سال ہی گزارنا ممکن تھا ۔ اس خبرنے غفلت سے بیداری میں لمحہ نہ لگایا تھا۔ رب کا خاص کرم تھا کہ بندے کو سب بگڑا درست کرنے کا وقت دے دیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا ۔ واپسی کا راستہ خود احتسابی کا تھا۔ وہ نرم دل ،باکردار انسان تھا مگر سوچنے پر منفی بھی بہت کچھ تھا ۔سو اس نے کڑا محاسبہ شروع کیا۔ اطمینان کی ایک ہی بات تھی کہ اسے مہلت ملی تھی ۔ یقینا ہر کوتاہی کا ازالہ ممکن نہ تھا۔مگر وہ کوشش کا مکلف تھا سو وہ بھرپور کرے گا۔ مایوسی سے یکسر دور اس کا دل ودماغ حساب کتاب اور پلاننگ میں مصروف تھا اس نے راستے میں ہی موبائل پیکیج کروایا یہ پیکیج انوکھا پیکیج تھا جو سیاہیوں کو دھونے کے لئے تھا۔اس نے رابطہ شروع کر دیا ۔ جہاں جس رشتے ناتے میں کسی کمی کوتاہی ،ذیادتی کا شائبہ تھا اس نے سبھی کو فون کیا معافی تلافی کی ۔ عشا کی نماز کے بعد کا وقت اس نے مولانا صاحب سے فون پر ہی لے لیا تھا۔ جن سے والدین ،بیوی بچوں رشتہ داروں کے حقوق اپنے فرائض سے متعلق تفصیلی بات کی ۔ اسے اپنے والدین سے ملنے والی زمین سے متعلق شک تھا کہ زمین والد نے اپنے انتقال سے قبل ہی بیٹو ں کو دے دی تھی یقینا اس میں بہنوں کا حصہ تھا۔ قاری صاحب نے راستہ نکالا ،آپ اپنے حصہ میں سے بہنوں کو دے دیں۔ انھوں نے بہنوں کو فون کرکے فورا ہی بتا دیاکہ زمین کا فلاں حصہ آج سے تمھارا ہے۔ زکو کے حساب کتاب میں کافی وقت لگا ۔ جس کے لئے اسے اپنی کسی جائیداد کو بیچنا تھا۔ سو پراپرٹی ڈیلر کو فون کر کے فوری بیچنے کو کہا۔ گھر آیا تو تھکن سے چور تھا ،دوائی لی اور سو گیا۔ آج نہ جانے کیوں بڑی گہری نیند آئی۔ رات تین بجے کا وقت جیسے کسی نے پکارا ہو۔یوں عرصہ بعد اس نے تہجد کی ادائیگی کی۔ دعا کو ہاتھ اٹھائے تو کچھ نہیں مانگ پایا صرف آنسو تھے کہ اس کے پاس کہنے کو سمندر تھا جس کے بیان کا زبان کو یارا نہ تھا۔ یکا یک اسے محسوس ہوا وہ دامن رحمت میں پور پور بھیگتے کسی ایسی ہستی کی پناہ میں ہے جو بن کہے اس کی کیفیت ،اس کی باتیں سمجھتے اسے ڈھارس بندھا رہا ہے ۔ اسے درست راستے کا پتہ دے رہا ہے ۔ تب اس نے چپکے چپکے اسے بتایا کہ وہ بہت مہربان ہے ۔ وہ اس سے محبت کرتا ہے ،اس جیسا کوئی نہیں ، وہ توبہ کرتا ہے کہ وہ غافل رہا۔جب سب فجر کے لئے اٹھے وہ تلاوت کے بعد صحیح البخاری پڑھنے میں مصروف تھا۔ چھوٹی بیٹی نے عجب حیرت سے انھیں دیکھا اور پھر پہلی بار وہ باپ بیٹی قرآن وحدیث کے اسباق پر ڈسکشن کرتے اس کے نئے پیغام سے آشنا ہو رہے تھے ۔ انھیں ایک ایسے مومن سے آگہی ہوئی تھی جو دوسروں کے لئے خیر اور بھلائی کا سبب بنتا ہے ، وہ سوفٹ ویئر انجینئر تھا۔ سالہا سال کے پڑھانے کے بعد اس کے پاس ایسی مہارت تھی کہ وہ اپنا علم مختصر ترین وقت،آسان انداز میں بچوں تک پہنچا سکتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد یہ سب اس کے ساتھ دفن ہو جاتا سو اس نے اسی سے صدقہ جاریہ سمیٹنے کا سوچا۔ اس لمحے اسے ادراک ہوا تھا کہ دوسروں کو فائیدہ پہنچانے والے کام بھی عبادت اور صدقہ جاریہ ہیں ۔ اس نے اپنے ایک دو طالب علموں کو فون کر کے بلایا ۔جنھوں نے سیٹ اپ بنا دیا ۔ اب وہ زندگی بھر حاصل کیے گئے علم کی ریکارڈنگ کرا رہا تھا کہ وہ نہ بھی رہا تو اس کا علم باقی ہو ،نفع پہنچاتا رہے۔ یہ کام تھکا دینے والا تھا مگر اطمینان کا پلڑا اسے ہلکا کر دیتا۔ طبیعت دن بدن بوجھل ہو تی گئی ۔ کام تب بھی جا ری رہا ۔ کہ زندگی سے غلط اثرات مٹانا مثبت اثرات ثبت کرنا آسان تو نہ تھا۔ ان دنوں وہ رب سے قرب کی جن منازل کو طے کر رہے تھاناقبل بیاں تھا، کسی نے ان لمحوں کو بھی ریکارڈ کر لیا۔ خود احتسابی ، استغفار ، صدقہ جاریہ سمیٹتے چھ ماہ کا عرصہ جیسے پر لگا کر گزرا اور وہ وقت آ گیا۔ رب سے راز و نیاز کرتے وہ نڈھال ہوکر جائے نماز پر ہی بے ہوش ہوگیا۔ بچوں نے ڈاکٹر بلا لیا تھا۔ تب انھوں نے ڈاکٹر سے معذرت کرتے کہا،اب آپ کی ضرورت نہیں رہی ۔ بڑے اطمینان سے گھر والوں سے معافی تلافی کرتے ،نارمل انداز میں داعی اجل کو لبیک کہتے ،کئی زندگیوں کی ترجیحات کو بدل ڈالا۔ اس کے ریکارڈ شدہ پیغامات اور اسباق فائدے کا وہ سلسلہ تھاجو یقینا ختم ہو نے والا نہ تھاکہ بندے کے پاس جو تھا وہ اس نے بے لوث سپرد کردیا تھا۔
٭٭٭