خدا خدا کرکے امریکی انتخابات کا خاتمہ ہوا کہ جس میں سول وار کا خطرہ لاحق تھا کہ جس میں صدارتی امیدوار سزا یافتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر میں ہار گیا تو میں نہیں مانوں گا جس کا خطرہ یہ تھا کہ اگر ٹرمپ الیکشن ہار گیا تو وہ دوبارہ پھر چھ جنوری2021والے حالات پیدا کر دے گا شاید کانگریس اور صدارتی محل پر حملہ ہوگا۔ نتائج کو حسب عادات تسلیم نہیں کیا جائے گا جن کے پیروکار تیار تھے اگر ان کا ہر دلعزیز کلٹ نما لیڈر ٹرمپ ہار گیا تو وہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیگا مگر ایسا نہ ہوا۔ ٹرمپ اپنی نسل پر ستانہ تعصبات پر مبنی انتخابی مہم کی وجہ سے دوسری مرتبہ امریکی خواتین ہیلری کلنٹن اور کملاہیرس کے مقابلے الیکشن جیت گئے جس کو دونوں خواتین نے تسلیم کرتے ہوئے مبارکباد دی ہیں تاکہ امریکہ کی جمہوریت قائم دائم رہے جس کے خاتمے کے خطرات اُمنڈ رہے ہیں کہ آج امریک کا وہ صدر منتخب ہوا جس نے گزشتہ انتخابات اور جیتنے والے صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملاہیرس کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا تھا اور ناہی آج کے نتائج کو تسلیم کرتا جو امریکی سیاست کا بہت بڑا سانحہ برپا ہوتا جس سے امریکہ بال بال بچ گیا۔ کل کیا ہوگا یہ خدا بہتر جانتا ہے کہ اگر نیویارک ریاست کی عدالت کا فیصلہ آیا جو34کائونٹس پر مشتمل ہے کہ انہوں نے اپنے کاروبار میں ہیرا پھیرا کر رکھی ہے جس کے علاوہ دیوالیہ پن۔ مواخذہ اور دوسرے مقدمات زیرساعت میں جس میں انہیں سزا ہوسکتی ہے۔ جس کے بعد اب سوالات اٹھ آئے ہیں۔ کہ پہلے تو ایک سزا یافتہ شخص کو انتخابات میں اجازت کیسے ملی ہے دوم ریاستی عدالت کے فیصلے کو وہ کس طرح معاف کر پائیں گے۔
سوم وہ مقدمات ماضی کے ہیں ان کی سماعت اب جاری رہے گی چہارم اگر عدالت نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیا تو پھر کیا ہوگا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں ایک تاریخ جنگ برپا ہوگی جس میں نہ جانے کیا کیا نقصانات ہوجائیں گے کہ جس میں امریکی نظام حکومت بے بس اور بے اختیار ہوجائے گا۔ کیا ٹرمپ کو بھی نکسن اور بل کلنٹن کی طرح مقدمات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ کہ جس میں مواخذے کی وجہ سے صدر نکسن کو اقتدار چھوڑنا پڑا یا پھر صدر بل کلنٹن کی طرح مواخذے کے پل سے گزرنا پڑا تھا تاہم بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں ابھی حکمرانی کا کوئی مقام نہیں ہے، دونوں صدارتی امیدوار سابقہ خاتون اوّل اور سینٹر ہیلری کلنٹن اور موجودہ سابقہ اٹارنی جنرل کیلفیورنیا، سینٹر اور نائب صدر کملاہیر س ایک سزا یافتہ شخصیت سے ہار گئیں جبکہ برصغیر میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی وزیراعلیٰ مایامتی، سری لنکا کی وزیراعظم سری ماوے بندر نائیکے، وزیراعظم چندریکے بندر نائیکے، پاکستانی وزیراعظم بینظیر بھٹو اور پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اور وزیراعظم خالدہ ضیا اپنے اپنے ملکوں پر حکمران رہی ہیں یا ہیں۔ جس کے مقابلے میں امریکی خواتین کو مردانہ اور رنگ کی بنا پر جیتنے نہیں دیاگیا جبکہ ہیلری کلنٹن نے 2016میں تین ملین زیادہ پاپولر ووٹ لینے تھے یا پھر عملہ کملاہیرس نے68ملین کے لگ بھگ ووٹ لے کر ایک نئی تاریخ مرتب کی ہے۔ جن کے انتخاب میں امریکی اقلیتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں اس دفعہ بعض مسلمان امریکن نے خاتون امیدوار سیاہ فام کملاہیرس کو ووٹ نہ دے کر اپنی رجعت پسندی فسطائیت اور فرسوویت کا ثبوت دیا ہے۔ جو ایک نہایت ناپسندیدہ عمل ہے کہ مسلم امریکن نے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا، فراڈ کے کاروبار میں ملوث پا کر سزا یافتہ ہے ،دوسرا ٹرمپ پہلا صدر ہے جس نے بروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ کھولا ،تیسرا ٹرمپ نے اپن پہلی صدارتی میں سات ممالک کے مسلمانوں پر پابندی عائد کی تھیں کہ ان کو ویزے نہ دیئے جائیں۔ ویزوں کو کینسلڈ کیا جائے جو امریکہ میں آئے ہوئے انہیں ملک بدر کیا جائے۔ جس کے خلاف امریکن سول لبرٹی یونین فیڈرل عدالتوں میں چیلنج کیا جن کو عدالتوں نے کالعدم قرار دیا کہ مذہب نسل اور رنگ قومیت کی بنا پر کسی شخص کو تعصب کا شکار نہیں کرسکتے ہیں۔ بہرحال آئندہ دنوں میں کیا ہونے جارہا ہے یہ اب امریکی خاتون ہی بتائے گا کہ کیا ایک سزا یافتہ منتخب صدارتی کرسی پر بیٹھ سکتا ہے یا پھر نہیں اگر نہیں تو پھر کیا ہوگا جو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ امریک کسی دوسری میں مبتلا ہوجائے ہوسکتا ہے امریکی نظام کمپرومائنز کر جائے جس کے بعد ہر قاتل، ڈاکو، چور، اچکا کرپٹ زانی سزا یافتہ شخص کسی عہدے کا حق دار ہوگا۔ جو سابقہ تمام روایات کو رد کردے گا کہ کوئی امیدوار صاف ستھرا ہونا چاہئے جس کے بعد امریکہ تیسری دنیا سے بھی بدتر ہوجائے گا وقت کا انتظار کریں۔
٭٭٭٭٭