کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خود کش حملے میں بڑی تعداد میں شہادتوں کے بعد ملک میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو از سر نو مربوط کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔انسداد دہشت گردی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں بین الاقوامی قوتوں کی نئی صف بندی ،عالمی اقتصادی مفادات اور پاکستان کی تجارتی اہمیت دہشت گردی کی وجوہات میں شامل ہیں ۔دہشت گرد گروہ افغانستان کی عدم استحکام سے دوچار سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔پاکستان میں ریاست سے ناراض گروہ اور مسلکی تشدد پسند آسانی سے بیرونی قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ان عناصر کی شدت پسندی کو بیرونی عزائم سے ہم آہنگ کرنے والی قوتیں پاکستان میں بد امنی پیدا کرتی ہیں۔ کوئٹہ کا حالیہ واقعہ اس کی مثال ہے جس کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی اور جس میں کئی فوجی جوان شہید ہوئے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں 1979 کے دور سے تلاش کی جا سکتی ہیں ۔ جنگ کے باضابطہ طور پر ختم ہونے کے بعد افغانستان میں لرنے والے مجاہدین نے علاقے میں کارروائیاں جاری رکھیں۔ افغانستان پر دوبارہ طالبان قبضے کے بعد افغان جیلوں سے ٹی ٹی پی کے 1500 عسکریت پسندوں کو رہا کیاگیا۔افغانستان میں متعدد پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کے لیے نقل و حرکت کی آزادی حالات کو بگاڑ رہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا دوسرا راستہ بھارتی کارروائیوں نے کھول رکھا ہے۔بھارت کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو پیچھے ہٹانا چاہتا ہے، پاکستان کی عالمی حیثیت کم کرکے خطے کی پالیسیوں پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے ۔ ایک بھارتی شہری کلبھوشن جادیو کو مارچ 2016 میں پاکستانی حکام نے بلوچستان سے گرفتار کیا ۔ اس پر جاسوسی و تخریب کاری ، بلوچستان میں خفیہ دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کا الزام تھا۔ پاکستان نے جادیو کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں اس نے اعتراف کیا کہ اسے بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی، ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) نے بلوچستان اور کراچی میں جاسوسی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور منظم کرنے کا کام سونپا تھا۔کراچی و بلوچستان کے حالات میں خرابی بھارت کی ایسی ہی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔انسداد دہشت گردی کے لئے قومی سطح پر اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا۔یہ ایکشن پلان حکومت پاکستان نے دسمبر 2014 میں دہشت گردی کے خلاف کریک ڈاون کرنے اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی تکمیل کے لیے اس وقت تشکیل دیا تھا جب 2014 میں پشاور سکول پر ہونے والے مہلک حملے کے بعد ایک بڑی مربوط ریاستی جوابی کارروائی ضروری تصور کی جا رہی تھی۔اس منصوبے کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت پورے ملک کے سیاسی حلقوںمیں حمایت اور تعاون حاصل ہوا۔نیشنل ایکشن پلان میں خارجہ اور داخلی پالیسی کے اقدامات کو یکجا کیا گیا جس کا مقصد ملک بھر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون کرنا اور انہیں ختم کرنا تھا۔ یہ منصوبہ پاکستان کے آئین میں اکیسویں ترمیم کے فریم ورک کے طور پر فراہم کیا گیا جس نے دہشت گردی سے متعلق جرائم کے لیے فوری ٹرائل والی فوجی عدالتیں قائم کی تھیں۔ اس کے نتیجے میں سزائے موت کی بحالی اور موبائل ٹیلی فون پر تمام صارفین کے فنگر پرنٹ کی شناخت کے ذریعے دوبارہ تصدیق لازمی ہو گئی۔یہ احتیاطی اقدامات مسلسل جاری نہ رہ سکے ۔سیاسی کشیدگی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ترجیحات تبدیل کر دیں یوں نیشنل ایکشن پلان کے لئے اداروں کو جو عوامی حمایت بہت محنت اور بتدریج عوامی رابطوں سے ملی تھی اس میں کمی آتی گئی۔معلوم نہیں اس امر کا ادراک کسی سطح پر پایا جاتا ہے یا نہیں؟ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسداد کے لیے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان وزارت داخلہ نے سٹیک ہولڈروں کی مشاورت سے تیار کیا اور 24 دسمبر 2014 کو پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا۔ قومی داخلی سلامتی پالیسی 2014 کے بعد، یہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ دوسری متفقہ پالیسی دستاویز تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ عمل درآمد کے لیے ایک قومی نگرانی کا طریقہ کار وضع کریں اور اس پر عمل درآمد کریں، کیونکہ نیشنل ایکشن پلان میں متعدد وفاقی وزارتیں اور صوبائی حکومتیں شامل ہیں۔ نیکٹا کو نیشنل ایکشن پلان کی مانیٹرنگ باڈی کا کردار سونپا گیا ۔ دہشت گردی کے انسداد کے لیے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر مختلف وجوہات کی بنا پر پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔ اس پر عمل درآمد کے لیے منصوبہ پر شہری حمایت کا فقدان، دہشت گردی کی تعریف پر ابہام اور دہشت گردی پر قومی بیانیے کی عدم موجودگی شامل ہیں۔تاہم، کامیاب کراچی آپریشن اور قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام اس منصوبے کے تحت اہم کامیابیاں تھیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر کام کرنے کے لیے 14 کمیٹیاں بنائی گئی تھیں لیکن ان میں سے صرف دو ہی کام کر سکیں۔ “بیرون ملک مقیم مایوس لوگوں” کے ساتھ بات چیت کے ذریعے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے مفاہمت اس منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔ بات چیت کا آغاز بلوچستان کی صوبائی قیادت کے ذریعے کیا گیا تھا، پرامن بلوچستان پروگرام بھی شروع کیا گیا اور عسکریت پسندوں نے حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے شروع کیے تھے لیکن یہ عمل جاری نہیں رہا۔بلوچستان میں خاص طور پر دہشت گردی پاکستان کی اقتصادی منصوبہ بندی کو متاثر کر رہی ہے۔انسداد دہشت گردی کی منصوبہ بندی کو جلد از جلد از سر نو بروئے کار لانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
٭٭٭