نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے حالیہ عام انتخابات کو جمہوریت کے فروغ کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہوئے انتخابی بے ضابطگیوں اور شکایات کے ازالے کی خاطر دستیاب قانونی راستے اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پر امن احتجاج اور اجتماع بنیادی حقوق ہیں لیکن کسی کو انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔نگران وزیر اعظم کا مشورہ اس لحاط سے قابل قدر ہے کہ پاکستان کو استحکام اور امن کی ضرورت ہے۔ان دونوں کی عدم موجودگی ملک کو متعدد بحرانوں میں دھکیل چکی ہے۔سیاسی قوتیں ، ریاستی ادارے اور عوام کی اجتماعی سرگرمیوں کا محور ریاست کی بہبود اور ترقی ہوتی ہے۔اس محور کو فراموش کر دیا جائے تو قومی زندگی کے درہم برہم ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ سندھ، بلوچستان اورقومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے اور پنجاب و کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد لازم ہو چکا تھا۔ریاست کے مسائل اپنی جگہ لیکن یہ بات سیاسی عمل پر یقین رکھنے والوں کے لئے حوصلہ افزا نہیں تھی کہ مقررہ مدت کے دوران انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا۔انتخابات کسی ایک جماعت کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ یہ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمہوری تسلسل پر یقین کے مترادف ہے۔یہ بھی درست ہے کہ اس دوران کچھ سیاسی حلقوں نے ریاست کی سکیورٹی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے احتجاج اور منفی مہم کا سہارا لیا۔سیاسی جماعتیں دو واضح صفوں میں بٹ گئیں۔نو مئی کے افسوسناک واقعات نے اس تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔حقیقی واقعات کے ساتھ کچھ جماعتوں نے اس دوران ذاتی انتقام کو ہوا دی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پولیس کا طرز عمل انتہائی نامناسب اور شہریوں کے وقار کے منافی رہا۔ایسی شکایات کی تعداد شائد ان گنت ہو جن میں پولیس کی جانب سے نو مئی کے واقعات کی آڑ میں معصوم شہریوں کو پکڑا گیا، پولیس اہلکاروں نے پکڑے گئے افراد سے تھانے کی سطح پر لین دین کیا۔نگران حکومت پولیس کے اس طرز عمل کو روک نہ سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات میں پولیس کے روئیے سے نالاں ووٹر باہر نکل آیا۔اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ملک کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو اس ساری صورتحال کا غیر ضروری طور پر قصور وار ٹھہرایا جانے لگا۔ سول ادارے اس پکتی ہوئی کھچڑی اور عام آدمی کے دماغ میں اٹھتے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکی،ان سیاست دانوں نے اس ابہام کو مزید ہوا دی جن کو ایسی کیفیت کے اندر سے اپنے مفادات کی تکمیل ہوتی نظر آ رہی تھی۔نگران وزیر اعظم نے چند روز قبل پر امن انتخابات کو اپنی حکومت کی اچھی کارکردگی سے منسوب کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پولنگ کے روز ووٹ ڈالنے کا عمل بہت آزادانہ اور پر امن ماحول میں انجام پایا۔مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب چیف الیکشن کمیشنر کے دعووں کے بر عکس انتخابی نتائج مرتب کرنے والا نطام غیر فعال ہو گیا، انٹرنیٹ اور موبائل سگنلز کی بحالی میں ضرورت سے زیادہ تاخیر کی گئی۔حیرت اس بات پر کہ ایک ہفتہ سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود الیکشن کمیشن نظام بیٹھ جانے کی ٹھوس وجہ بیان نہیں کر سکا۔دوسرا مسئلہ فارم پنتالیس اور فارم سنتالیس میں دکھائے گئے نتائج میں فرق سے پیدا ہوا۔دونوں فارم الیکشن کمیشن نے جاری کئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ایک ہی حلقے کے نتائج تین تین بار مختلف جاری کئے۔نتائج آنے میں پانچ دن لگ گئے۔اب امیدوار فارم پنتالیس اٹھائے پھر رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن درست بات نہیں بتا رہا ۔پہلے سے موجود بدگمانیوں میں اس صورتحال نے اضافہ کر دیا ہے۔وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے مشورے پر عمل کیا جائے تو سب سے پہلے الیکشن کمیشن پائے جانے والے شکوک کے بارے میں وضاحت پیش کرے۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے شکایات کی سماعت کے لئے اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں الیکشن ٹربیونل قائم کر دیئے گئے ہیں۔یہ ٹربیونلز قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل انتخابی عذرداریوں کا فیصلہ کریں گے۔ سب سے زیادہ ضرورت پنجاب اور سندھ میں ہے جہاں انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج پھیلنے کا خدشہ ہے۔اس طرف توجہ دی جانی چاہیئے اور ان شکایات کے متعلق جو بھی فیصلہ ہو اسے جلد صادر ہونا چاہیئے۔ انتخابی عمل کا انعقاد اور اس پر عوامی اعتبار برقرار رکھا جاناضروری ہے۔بلاشبہ پاک فوج نے الیکشن کے دوران امن و امان سمیت اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیا۔خرابی کے جو واقعات ہوئے وہ الیکشن کمیشن کی ذیل میں آتے ہیں۔الیکشن کمیشن ہی اس معاملے میں عوام کو اعتماد میں لے سکتا ہے۔ملک کے عمومی حالات سیاسی تقسیم کی ہی دلیل نہیں بلکہ اس امر کا ثبوت بھی ہیں کہ ہمہ گیر بحران کو حل کرنے کے لئے ہمہ گیر جدوجہد درکار ہے۔پاکستان دہشت گردی، معاشی بد حالی، سماجی انتشار اور گورننس کی خرابی کا شکار ہے۔فیصلوں اور اقدامات پر عمل میں سستی کا رواج رہا ہے ۔ایک دوسرے سے سیاسی حسابات لیتے لیتے حکومتوں نے ریاست کی ترقی و بہبود کے بنیادی تقاضوں کو فراموش کئے رکھا ہے۔نگران وزیر اعظم نے انتخابی نتائج کے مسائل سے باوقار انداز میں نمٹنے کا دستایب قانونی راستہ دکھا دیا ہے۔تمام جماعتوں اور امیدواروں کو اس راستے کا انتخاب کرکے ملکی استحکام کو یقینی بنانا چاہئے۔عوام کے دماغ میں جو سوالات ہیں ان کا جواب ملنا چاہئے۔شکایات اور بے ضابطگیوں کو ختم کرنے کے لئے قانونی راستے کی حوصلہ افزائی ان راستوں کو بند کر سکتی ہے جو انارکی اور بے چینی کی طرف جاتے ہیں۔
٭٭٭