اسلام آباد (پاکستان نیوز) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اس بات سے مشروط ہے کہ افغان طالبان پاکستان پر اپنی سرزمین سے حملہ کرنیوالے دہشت گردوں کو قابو میں رکھیں۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹر کو انٹرویو میں انہوں نے کہا افغانستان کی طرف سے ہونے والا کوئی بھی حملہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، ہر چیز اسی ایک شق پر منحصر ہے۔ پاکستان، افغانستان، ترکیہ اور قطر کی جانب سے دستخط کردہ معاہدے میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ کوئی سرحدی دراندازی نہیں ہوگی۔ جب تک اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جنگ بندی نافذ العمل رہے گی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان سے طالبان کی ملی بھگت سے پاکستان پر حملے کرتی رہی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا پاکستان پر حملہ کیا گیا ہم نے انہیں کی زبان میں اس کا جواب دیا، دہشتگرد کابل اور افغانستان میں ہر جگہ موجود ہیں، وہ جہاں بھی ہونگے ہم انہیں نشانہ بنائیں گے، کابل نو گو ایریا نہیں ہے۔ 25 اکتوبر کو استنبول اجلاس میں معاہدے پر عملدرآمد کیلئے میکنزم وضع کیا جائیگا۔ الجزیرہ عربی کو ایک علیحدہ انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا جنگ بندی معاہدے کا بنیادی مقصد دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ ہے۔ دہشت گردی کئی برسوں سے پاک، افغان سرحدی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔ دونوں ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیںکہ دہشت گردی کا فوری خاتمہ ضروری ہے، دونوں فریقین سنجیدگی سے انسداد دہشت گردی کی کوششیں کریں گے، ورنہ علاقائی امن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر قطر اور ترکیہ کی ثالثی سے طے پایا، اور دونوں ممالک کی موجودگی اس معاہدے کی ضمانت ہے۔ انہوں نے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے کردار کو بھی سراہا جنہوں نے اس معاہدے میں سہولت فراہم کی۔ انہوں نے کہا آئندہ ہفتے25 اکتوبر کو استنبول میں ایک اور اجلاس ہوگا تاکہ معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے اور دونوں ممالک کے درمیان موجودہ مسائل کے حل کیلئے ایک مؤثر نظام وضع کیا جائے۔ میرے افغان ہم منصب نے بھی تسلیم کیا کہ دہشت گردی ہی دو طرفہ تعلقات میں تناؤ کی اصل وجہ ہے، جسے اب حل کیا جائے گا۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان کو دہشت گردی کے باعث بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اب امن بحال ہوگا اور پاکستان و افغانستان کے تعلقات معمول پر آ جائیں گے اور اس کے نتیجے میں پاک، افغان تجارت اور ٹرانزٹ سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی، جس سے افغانستان دوبارہ پاکستانی بندرگاہوں کو استعمال کر سکے گا۔ انہوں نے کہا ایسے افغان پناہ گزین جو درست ویزا اور دستاویزات رکھتے ہیں، انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت ہوگی، تاہم غیر قانونی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پاک افغان بارڈر کا استعمال دنیا کے دیگر ممالک کی طرح باضابطہ ہونا چاہیے، تاکہ غلط فہمیاں اور غیر قانونی سرگرمیاں ختم ہوں۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ تمام خدشات دور ہو گئے ہیں، آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں دیکھنا ہوگا کہ معاہدے پر عمل درآمد کس حد تک مؤثر رہتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان صدیوں سے ہمسائے ہیں، جغرافیہ بدلا نہیں جا سکتا، امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک اچھے تعلقات کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے۔ برادر ممالک قطر اور ترکیہ کی ثالثی اور تعاون نے دونوں ممالک کو اعتماد دیا ہے۔ عرب نیوز کو انٹرویو میں وزیر دفاع نے اس خیال کو رد کیا کہ پاکستان نے کابل پر فضائی حملے امریکہ کے کہنے پر کئے، انہوں نے کہا کہ یہ بالکل فضول بات ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ پاکستان ایسا کیوں کرے گا، جب کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں مداخلت سے وہ پہلے ہی تنگ آ چکا ہے۔ ہم دور رہنا چاہتے ہیں اور ایک شریف ہمسائے کی طرح رہنا چاہتے ہیں، ہم افغان معاملات میں مداخلت نہیں چاہتے۔ پاکستان کا افغانستان کے بھارت یا کسی اور ملک کے ساتھ تعلقات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اس سے بالکل نہیں، جو کچھ وہ اپنی سرزمین پر کرنا چاہتے ہیں، جب تک وہ ہمارے ملک میں اثر انداز نہیں ہوتا، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ خواجہ آصف نے کہا ٹی ٹی پی سے قطعاً کوئی مذاکرات نہیں ہونگے، ہمارا معاہدہ افغان طالبان سے ہوا ہے۔










