ہم مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دینگے، فلسطین غائب!! !

0
48
کامل احمر

تاریخ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ طاقت ور قابضین نے ہی کسی ملک پر حملہ کے بعد قبضہ کرکے امین پھیلایا اور عوام کو خوشحالی دی اور ملک کو بنا کر آزادی دی اور چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکہ نے ایسا کیا لیکن بربادی کرکے لوٹے لیبیا ،عراق، مصر اس کی مثالیں ہیں جس نے یہ بات نہ مانی اس کا حقہ پانی بند کردیا۔ تازہ مثال روس ہے لیکن نتیجہ میں روس طاقتور رہا۔ جرمنی نے پہلے ہی دن اس ناکہ بندی سے انحراف کرتے ہوئے روس سے تجارت جاری رکھی10فیصد تیل جو روس سے آتا تھا، آنا بند ہوا تو امریکہ میں صافین کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا جو ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ حالانکہ تیل کی کمی نہیں پھر بتاتے چلیں کہ امریکہ٧ ملین بیرل، میکسیکو بھی٧ ملین بیرل، سعودی عربیہ10ملین بیرل سے زیادہ اور دوسری ریاستیں بھی شامل ہیں۔ لیکن صرف امریکہ میں ہی کیوں صارفین اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں خود فیصلہ کریں۔ امریکہ پہلے تو یوکرین کی حمایت میں جاگھسا اور بے پناہ ڈالرز اور ہتھیار ٹینک وغیرہ پہنچائے پاکستان کی بھی جنرلوں کو مدد دی کہ500ملین ڈالر کے چھوٹے ہتھیار فراہم کروائے یوکرائن کو اور اب اسرائیل اور فلسطینیوں کی جھڑپ بڑھ کر جنگ اختیار کر گئی ہے۔ صدربائیڈین اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی پکار کے بغیر ہر دو گھنٹے بعد بتا رہے ہیں فکر نہیں کرو جو چاہئے ہم دینگے۔ سارے سینیٹرز اور کانگریس مین سر جوڑے ہاتھ جوڑے نتن یاہو کو ہر طرح کے جہازF-16اورF-35کے علاوہ بحری بیڑہ بھی دینے کا اعلان کرچکے ہیں کیا امریکہ امن کا داعی ہے سوچیں1947سے اسرائیل اور عرب کے مابین ہونے والی جنگوں یا حملوں میں ہمیشہ امریکہ نے مدد فراہم کی ہے لیکن اگر امن چاہتا تو وہاں امن لا سکتا تھا۔ جب یاسر عرفات زندہ تھا تب صدر کلنٹن نے دونوں کے درمیان امن کرنے کی کوشش کی لیکن یاسر عرفات کا کہنا تھا دو ریاستیں بنیں گی لیکن اسے یروشلم چاہئے جہاں مسجد اقصیٰ ہے جو تینوں مذاہب کے لئے قابل احترام اور عبادت کی جگہ ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی اور پابندی لگا دی فلسطینیوں پر اور نتیجہ میں شمالی حصہ سے حزب اللہ(جو فلسطین پر حکومت کرتا ہے جہاں مسلمان ہیں(ویسٹ بنک اور غازہ) اور منیجر کے دن صبح حزب اللہ نے اسرائیلی کے شمال میں اندر داخل ہو کر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں اسرائیلی مارے گئے اور اعلی فوجی افسران کو یرغمال بنا لیا گیا دوسری طرف اسرائیل نے جواب دیا اور غازہ میں دس منزلہ رہائشی عمارتوں کو بم مار کر مسمار کردیا ایک ہی خاندان کے دس افراد مارے جانے والوں میں شریک ہیں۔ اور اب یہ جنگ بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے جس میں ایران بھی اخلاقی طور پر شامل ہے اور لبنان میں مسلم حمایت حزب اللہ نے بھی راکٹ پھینکے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا اور کیوں ہو رہا ہے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے کہا ہے ہم مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دینگے یہ اس کا نیا ورلڈ آرڈ ہے اور کرنے جارہا ہے اسے امریکہ کی شے ہے اریکہ کا اس یں کیا فائدہ ہے ہمیں یہ جاننے سے قاصر ہیں اور امن کے خواہں ہیں۔1947سے اب تک دونوں فریقین کے درمیان جس میں پہلے مصربھی تھا اور شام بھی کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور ہر بار اسرائیل انکی زمینوں پر قبضہ بڑھاتا رہا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ اس نئے ورلڈ آرڈر کے عمل سے وہ آدھے سے زیادہ حصہ پر قبضہ کر چکا ہوگا۔ مختصر طور پر بتاتے چلیں۔ 1947سے1949میں اسرائیل نے خودمختاری کی جنگ کا آغاز کیا تھا عرب جنگجوئوں نے خلاف،1952میں اسرائیل نے مصر سے جنگ چھیڑ دی اس کا ارادہ سویز کنال(جو مصر کی شہ رگ ہے) پر قبضہ کرنے کے لئے تھا اس کے بعد1967میں مصر، اردن اور شام نے مل کر اسرائیل پر محاذ کھولا اور گھمسان کی جنگ ہوئی جو صرف چھ دن جاری رہی اور جنگ بندی ہوگئی نتیجہ میں اسرائیل نے ان ملکوں کہ کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا جن میں گولان ہائیٹس شامل ہے۔1983میں یوم کپور کے دن مصر اور شام نے مل کر اسرائیل سے مقابلہ کیا۔ اس کے بعد1982میں اسرائیل کی فوج نے لبنان کے شمالی علاقہ پر قبضہ کرلیا۔
ان جنگوں کے بعد1979میں جب امریکہ کے نہایت ہی امن پسند صدر جمی کارٹر آئے انہوں نے بڑا کام سرانجام دیا۔ اور کیمپ ڈیوڑ میں مصر اور اسرائیل کا جب مصر کے انور سادات اور اسرائیل کے سناشن بیگن تھے کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ کرایا امن کا۔ ادھر ویسٹ بنک میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر زندگی تنگ کردی اور انکی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کیا تو فلسطینیوں کی اسرائیل سے جھڑپیں شروع ہوگئیں اسکے بعد صدر کلنٹن آئے وہ بھی جمی کارٹر کی سوچ کے تھے انہوں نے1994میں وزیراعظم اسحاق رابین اور اردن کے وزیراعظم عبدالسلام کے درمیان امن کا معاہدہ کرا دیا یہ ایک اعلیٰ قدم تھا امریکہ کی طرف سے اس کے بعد کسی نے کوشش نہیں کی کیونکہ غزہ اور ویسٹ بنک فلسطینیوں کی زمین ہے اور اس کو ابھی تک امریکہ اور اسرائیل نے ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا دوسرے حزب اللہ اور حماس کو اسرائیل دہشت گرد قرار دے کر کسی قسم کے تعلقات یا امن نہیں چاہتا اور اس کی آڑ میں وہ دونوں علاقوں میں جنگ کے بہانے گھس کر اپنے ملک کو وسیع کرتا رہتا ہے۔ اورMIGHT IS RIGHTکے برسوں پرانے اصول کے تحت امریکہ کی حمایت سے قابض ہوجاتا ہے۔
یہاں احتیاطً یہ لکھتے چلیں کہ یہ جاری رہنے والی جنگ بھی اس بات کی نشاں دہی کر رہی ہے اور غزہ اور ویسٹ بنک کی پٹی پتلی سے پتلی ہو رہی ہے۔ دونوں طرف بے گناہوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں، روس اور چین کہتا ہے اس کا حل دو ریاستوں کا قیام ہے مطلب اسرائیل اور فلسطین یہ بھی کہتے چلیں جب یاسر عرفات تھے کلنٹن نے کوشش کی تھی امن لانے کی لیکن ایسا نہ ہوسکا ہم دونوں صدور ”صدرجمی کارٹر اور صدر کلنٹن کو سیلوٹ کرتے ہیں کاش بائیڈین جو اسرائیل کو تھپکیاں دے رہے ہیں انہیں فالو کریں، دونوں طرف جو جانیں ضائع ہوئی ہیں مختلف تعداد بتائی جارہی ہے لہذا ذکر ممکن نہیں اقوام متحدہ کا سکیورٹی کونسل کا اجلاس بند کمرے میں جاری ہے کل سے اور رہے گا ایک فلسطینی شخصیت شیخ احمد یاسین جن کا قتل2004میں ہوا تھا نے کہا تھا”ہم چھوٹے تھے تو سمجھتے کہ یہود غزہ پر قابض ہیں جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ یہود پورے عرب پر قابض ہیں سوائے غزہ کے ”آج وہ زندہ ہوتے تو یہ ہی کہتے دنیا پر قابض ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here