اب حوصلہ بڑھانے کو افطار بھی تو ہو!!!

0
46

گزشتہ بتیس سال سے ہماری رہائش امریکہ کی ریاست نیو جرسی کے وسطی علاقے میں ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا یہ علاقہ ماہِ رمضان کی رونقوں کا ایک ایسا مرکز ہے جو دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے سے اس معاملے میں مقابلہ کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں، رمضان المبارک کی بڑھتی ہوئی رونقوں کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک میگا مساجد کی تعمیر اور دوسرے حلال فوڈ انڈسٹری کی ترقی۔ ہماری رہائش گاہ کے ارد گرد، بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو کے ریڈیس میں، دس سے زائد میگا اسلامک سنٹر قائم ہو چکے ہیں۔ ایک طرف MCMC اور ISCJ کی تاریخی مساجد ہیں جن کا آغاز چھوٹے پیمانے پر ہوا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب وہ اپنے میجر کمپلیکس قائم کرچکی ہیں۔ دوسری طرف مسجد الولی اور مسجد الفلاح جیسے ادارے ہیں جن کا قیام ہی میگا مسجد کے طور پر عمل میں لایا گیا۔ پھر ان کے درمیان ICOB، MCNJ، دارالارقم، EBIC اور MCGP جیسی مساجد ہیں جنہوں نے تیزی سے ارتقا کی منازل طے کی ہیں۔ اس کے علاوہ MAS Center, ISBR اور Lawrenceville بھی تیزی سے بننے اور بڑھنے والی مساجد میں شامل ہیں۔ نیو برونکس سے شروع ہونے والی مسجد ہدی اب نارتھ برنسوک میں منتقل ہوکر NBIC کے نام سے زیادہ جانی جاتی ہے اور وہ بھی اپنی تعمیر و ترقی کیلئے کوشاں ہے۔مساجد کی اس خوبصورت کہکشاں میں رمضان المبارک کے آخری دس دن گزارنے کا ہر سال جو موقع ہمیں نصیب ہوتا ہے، اسے احساس کی دنیا میں تو یہ شعر ہی بیان کرسکتا ہے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ آخری عشرے کے دوران، خوش الحان قاری اور حفاظِ کرام اپنی متاثر کن قرت سے ایک سماں باندھے رکھتے ہیں۔ نمازِ تراویح کے ساتھ ساتھ قیام الیل کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں تلاوتِ قران کی سماعت کا اپنا ہی لطف ہے۔ ہر مسجد افطار اور سحور کا باقاعدہ انتظام کرتی ہے۔ بلکہ سحور فیسٹول کی ایک نئی اصطلاح کا آغاز بھی ہو گیا ہے جہاں مسجد کے ارد گرد مختلف ریسٹورانٹ اپنے کھانے کے اسٹال لگاتے ہیں۔ ہر مسجد میں معتکفین حضرات کیلئے بھی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ سیکنڈ جنریشن یوتھ کی ٹولیاں، مختلف مساجد کے ٹرپ کرتے نظر آتی ہیں۔ جوس، چائے اور کافی کے انتظامات کے ساتھ ساتھ ڈونٹس اور دیسی مٹھائیاں بھی دستیاب رہتی ہیں۔ خواتین اور بچیوں کے اپنے پروگرامات چل رہے ہوتے ہیں۔ بالکل چھوٹے بچے بھی کثیر تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ نفلی اور فرضی عبادات کے ساتھ ساتھ یہ خوبصورت ماحول، ماہِ رمضان کے مبارک دنوں کو ہر سال یاد گار سے زیادہ یادگار بنا دیتا ہے۔ مقدس مہینے کی اسی گہما گہمی میں، مسجد اور ریلیف کے اداروں کیلئے فنڈریزنگ بھی جاری رہتی ہے۔ زیادہ تر رفاہی اداروں کی ساٹھ ستر فی صد آمدن، اسی ایک مبارک ماہ میں جمع ہوتی ہے۔ اس سال، غزہ کی صورتحال کی وجہ سے، فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے سب سے زیادہ فنڈ جمع کئے جارہے ہیں۔ امریکہ میں رہنے والے مسلمان، دل کھول کر مدد میں مصروف ہیں۔ نمازِ تراویح کی برکتوں سے، یہ سالانہ فنڈریزنگ، مختلف اداروں کیلئے فنڈز جمع کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ ہماری کمیونٹی، فنڈز بھیجنے کے علاوہ، غزہ میں ہونے والے مظالم کو روکنے کیلئے بھی اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔ حال ہی میں وائیٹ ہاس میں ہونے والے سالانہ افطار ڈنر کا ایسا مثر بائیکاٹ ہوا کہ صدر صاحب کو وہ تقریب ہی کینسل کرنا پڑ گئی۔ اس آخری عشرے کے دوران، میرا تراویح کا وقت تو MCMC (مسجدِ النور) میں گزرتا ہے اور قیام کیلئے MCGP جانا ہوتا ہے۔ ایم سی ایم سی میں حافظ فہیم کی قرآت سننا نصیب ہوتی ہے جبکہ ایم سی جی پی میں شیخ اسماعیل عیس اپنے مسحورکن اسٹائل سے ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ کل جب سور فجر کی تلاوت کرتے ہوئے، وہ
یا یتہا النفس المطمئن ارجعی ال رب راضی مرضی فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی
پر پہنچے تو مولانا یوسف اصلاحی بیحد یاد آئے۔ سے لیکر، دو سال پہلے انکی وفات تک، ہر رمضان انکے ساتھ گزارنے کا موقع ملتا رہا۔ مولانا محترم اکثر اس سور کی تلاوت فرماتے تھے اور اس آیت پر پہنچ کر جذباتی ہوجایا کرتے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
اس سال، ہمارے اس امریکی علاقے کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آخری عشرے کی ہر رات ہی طاق رات اور لیل القدر ہو سکتی ہے۔ چاند دیکھنے کے اختلاف کی وجہ سے کچھ لوگ گذشتہ رات کو پچیسویں کی عبادات کرچکے اور کچھ کیلئے آنے والی رات پچیسویں ہوگی۔ زیادہ تر عیدیں بھی دو ہو جاتی ہیں اور ہم جیسے فنکشنوں کے شوقین لوگ دونوں جانب کے مزے اڑاتے ہیں۔ امریکی مسلمانوں کی سماجی زندگی، مساجد کے ارد گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ کاش ہم یہی بات مسلم اکثریتی ممالک کے بارے میں بھی کہہ سکتے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد، فرسٹ جنریشن امیگرینٹس سے بھی بڑھ کر دین کے قریب محسوس ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ فلسطین اور بلیک لائیوز میٹر (Black Lives Matter)جیسی تحریکوں کے بھی روحِ رواں بھی وہی ہیں۔سیاست، لابینگ اور پبلک ایڈووکیسی کے میدانوں میں بھی پوری دلچسپی لیتے ہیں۔ ماشااللہ، اسی طرح، بڑے بڑے رفاہی اداروں کی قیادت میں بھی وہ بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال، امریکی مسلم کمیونٹی کے ارتقا میں رمضان المبارک کے اس سالانہ نیکیوں کے موسم بہار کا کلیدی کردار رہتا ہے۔
ماہِ صیام میں معاشرے کی عمومی فضا نیکی کرنے کیلئے بیحد سازگار ہو جاتی ہے اور یقینا اسی لئے باریِ تعالی نے روزے رکھنے کا مقصد تقویٰ کا حصول بتایا ہے۔ سید وزیر علی صبا لکھنوی صاحب نے اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کی طرف کچھ اس طرح اشارہ کیا ہے۔
ہم رند پریشاں ہیں ماہ رمضاں ہے
چمکی ہوئی ان روزوں میں واعظ کی دکاں ہے
دعا ہے کہ واعظین کرام کی دکانیں ہمیشہ چمکتی رہیں، بس ذرا ان کو اپنی تقاریر مختصر رکھنے کی توفیق حاصل ہوجائے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here