پاکستان اور سیاسی انتقامی کارروائیاں

0
71
مجیب ایس لودھی

جمہوریت اور سیاست کسی بھی ملک کی انصاف پسندی اور معاشرتی اقدار کے عکاس ہوتے ہیں، جمہوری اور سیاسی روایات سے ہی کسی بھی ملک کی معاشرتی حالت کی عکاسی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اس وقت جمہوری اقدار اور سیاست کا جو حال ہے وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ ہے ، پاکستان میں سیاسی انتقامی کارروائیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں ، تحریک انصاف کو تاریخی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں سیاسی قیدیوں کے لیے الگ اصول و قوانین متعین کیے جاتے ہیں ، ان کیلئے الگ جیل اور عام قیدیوں کی نسبت قوانین نرم ہوتے ہیںلیکن پاکستان میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ، نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی اور صدر پرویزالٰہی سے جو انتقامی رویہ روا رکھا جا رہا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بالادستی کی صورتحال اور اس سے متعلق دعوے ہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی نو مئی کے واقعات کے بعد جس طرح پے در پے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے گئے اور انھیں گرفتار کیا گیا اس نے ملک کے احتساب کے نظام، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں اگر پاکستان تحریک انصاف کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کا ذکر کریں تو گذشتہ چند ماہ سے ایک کے بعد ایک متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور پاکستان کی مختلف عدالتوں سے درجن سے زائد بار رہائی کا حکم ملنے کے باوجود انھیں رہائی نہ مل سکی۔عدلیہ نے انھیں اپنے احکامات کے تحت رہا نہ کرنے پر سول بیوروکریسی اور پولیس افسران کی سرزنش، جرمانے اور توہین عدالت تک کی کارروائی کا آغاز کیا مگر پرویز الٰہی ہیں کہ بار بار ضمانت ملنے کے باوجود اب تک جیل سے باہر نہیں آ سکے۔چوہدری پرویز الہی کو ماضی میں بھی مقدمات کا سامنا رہا مگر کم از کم گذشتہ دو دہائیوں میں کسی مقدمے میں انھیں کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ان کے خلاف 2018 میں سپریم کورٹ نے سرکاری زمینیں غیر قانونی طور پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے متعلقہ اداروں کو تحقیقات آگے بڑھانے کا کہا تھا مگر نیب سمیت کوئی ادارہ انھیں گرفتار تو دور کی بات شامل تفتیش تک نہ کر سکا مگر جب انھوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور چند دن وزیراعلیٰ پنجاب رہنے کے بعد اب وہی پرویز الٰہی ایک مقدمے سے دوسرے مقدمے، ایک عدالت سے دوسری عدالت اور ایک جیل سے دوسری جیل میں نظر آتے ہیں۔اس وقت پرویز الٰہی متعدد تحقیقاتی اداروں کو متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان کے خیال میں ان پر یہ برق عمران خان کی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے پر گرائی گئی۔پرویز الٰہی کو جب بھی کسی مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ میڈیا کے نمائندوں سے یہی بات کرتے ہیں کہ ‘یہ لوگ’ کچھ بھی کر لیں وہ تحریک انصاف نہیں چھوڑیں گے، ان سب انتقامی کارروائیوں کا سہرا اسٹیبلشمنٹ کے سر سجایا جا رہا ہے ، اسٹیبلشمنٹ صرف ملٹری کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بیوروکریسی، پولیس اور دیگر کردار بھی شامل ہیں جو اسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہیں بڑی اسٹیبلشمنٹ بنا دیتے ہیں، پنجاب میں اس وقت نگراں حکومت کا بھی خاصا ‘ہولڈ’ ہے، جو باقاعدہ ایک حکومت کے طور پر سب منصوبوں کو دیکھ رہی ہے۔ جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد نہیں ممکن بنایا گیا تب سے ملک کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس وقت نظام گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کارروائیوں کے اگر نفسیاتی پہلو پر بات کی جائے تو جو لوگ اس وقت حد سے زیادہ ناجائز کر رہے ہیں وہ ایک جماعت اور اس کے رہنما کو مزید شہرت کی بلندیوں پر پہنچا رہے ہیں۔ اس سارے کھیل میں قانون کا مذاق بن رہا ہے اور ملک کا نقصان ہو رہا ہے، یہ سلسلہ دیرپا نہیں ہے اور اب لاٹھی کے استعمال کے طریقے بھی بدل چکے ہیں، اب لاہور قلعے کا دروازہ کھلا نہیں ہے جہاں برف کی سِلوں پر سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کو لٹا کر کوڑے مارے جاتے تھے۔سیاسی جدوجہد سے فرق پڑتا ہے اور کہیں نہ کہیں جا کر رول آف لا کا دباؤ بڑھتا ہے۔ ان کے مطابق رول آف لا یہ بھی ہے کہ جب کسی نے جرم کیا ہو تو پھر اسے اس کے کیے کی سزا بھی ملنی چاہیے۔ حنا جیلانی کے مطابق نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ ہوا اور اس بحث سے ہٹ کر کہ وہ فوجی تنصیبات تھیں جہاں آگ لگی مگر وہ غیرقانونی عمل ہی تھا۔ اب رول آف لا کے تحت ان کارروائیوں میں ملوث افراد کو سزا دی جانی عین قانون کی حکمرانی ہے، نو مئی کے بعد چار ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، ابھی تک نو مئی کے واقعات میں گرفتار کیے جانے والے ملزمان کا ٹرائل تک شروع نہیں ہو سکا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رول آف لا کا معاملہ نہیں ہے بلکہ غصہ نکالا جا رہا ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ نہیں ہے، اب ایسی ناانصافیوں، قانون کو عزت نہ دینے اور عدلیہ کی بے توقیری کرنے جیسے اقدامات کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ ہو کر پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں رہنما پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں اور جو رہنما ڈٹے ہوئے ہیں ان کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے ، حال ہی میں پی ٹی آئی کے اہم رہنما عثمان ڈار نے بھی پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما فرخ حبیب کی گمشدگی اور قتل کیے جانے کی اطلاعات ہیں ، ایسے حالات میں ملک میں انصاف کا پہلو ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here