مستقبل میں پاکستان کو ایک اور بحران کا سامنا ہوگا، یہ بحران نا معاشی ہوگا اور نہ ہی معاشرتی بلکہ خالصتا سیاسی طرز کا ہوگا۔ پاکستان کے سابقہ ایک حکمران جماعت کے اہم عہدے دار نے اس دکھ کا اظہار کیا جب میرا اس سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا۔میں نے اس سے بات کی وضاحت چاہی تو اس نے کہا کہ پاکستان میں سیاست ماضی کی طرح نہیں بلکہ مستقبل میں ایک منفرد شکل میں سامنے آنے والی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں چالیس پچاس لوٹوں کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ ان میں سے پیشتر کی حقیقت عوام کے سامنے کھل کر آ چکی ہے جبکہ باقی لوگوں کو باقاعدہ حکمت عملی کے تحت میڈیا سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ کسی بھی جماعت کی حمایت یا مخالفت میں ایسی بیان بازی نہ کریں جو کہ مستقبل میں ان کی سیاست کے آڑے آئے مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اب سیاست میں لوگوں کی دلچسپی سے اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کی بجائے براہ راست جماعت کے سربراہ کے خیالات سے متفق ہونے یا نہ ہونے کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔پاکستان میں سیاسی طور پر ایک اور بڑی تبدیلی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آئی ہے وہ سیاستدانوں کی اپنے حلقوں میں اجارہ داری کا دم توڑتا ہوا مان ہے۔آپ گزشتہ پندرہ بیس سالوں کی نسبت اب دیکھ لیں، جو حلقے کبھی کسی نہ کسی سیاستدان کا گھر ہوتا تھا اور وہ اس حلقہ سے انتخاب ہرصورت جیت جاتا تھا، چاہے وہ کسی پارٹی کے ٹکٹ پر آئے یا آزاد حیثیت میں، مگر اب صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوتے ہوئے کوئی حلقہ کسی سیاستدان کی آماجگاہ نہیں رہا جیسا ماضی میں ہوتا تھا۔سیاستدانوں کی باتیں اور وعدے اب اتنی جلدی ہوا نہیں ہوتے، یہ سیاستدان ان میڈیا سے کتنا ہی دور رہیں، اپنے حلقوں میں پھر بھی کیمرے کی نگاہ سے نہیں بچ سکتے، کسی نہ کسی کا موبائل کا انہیں ریکارڈ ضرور کر رہا ہوتا ہے، اور ان کی یہی باتیں ہیں مستقبل میں سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا نامہ اعمال بن کر ان کے سامنے آتی رہتی ہیں۔اب دانیال عزیز ،طلال چوہدری، فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان جیسے سیاستدانوں کو لوٹا بننے کے بعد شدید مزاحمت کا سامنا ہوگا۔آپ تصور کریں کہ جس نے نواز شریف کی تعریفیں کرتے کرتے طلال چوہدری دانیال عزیز جیسے سیاست دان تھکتے نہیں تھے وہ اب کس منہ سے انہیں بھلا کہنا شروع کریں گے، یا فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان جیسے سیاست دان عمران خان کو کس طرح تنقید کا نشانہ بنائیں گے، غرض پاکستان کو مستقبل میں جس سیاسی بحران کا سامنا ہوگا وہ لوٹوں کی عدم دستیابی کا ہے، اس سے پاکستانی سیاست کا بھلا ہوتا ہے یا برا ابھی کچھ کہنا مشکل ہے مگر ایسی مثالیں موجود ہے کہ جب لوٹا کریسی ختم ہو جائے اور سیاست کارکردگی سے منسوب ہو جاتی ہے تو اس میں یقینا ملک اور عوام کا بھلا ہے،اس لیے اب مالکان کو بھی پریشانی ہے کہ لوٹے لٹ گئے۔
٭٭٭