قارئین وطن! شام 7 بجے سے لے کر 11 بجے تک جتنے بڑے ٹاک شوز کے اینکرز حضرات ہیں چینل بدل بدل کر اپنی پرفارمنس دکھاتے ہیں اْن میں کچھ ہیں جو عمران اور اْس کی حکومت کے ساتھی یا اْس کے لئے سافٹ کارنر رکھتے ہیں اور تقریباً سب کے سب ہی نواز شریف زرداری کیمپ کے لوگ ہیں بیشتر نواز شریف اور شہباز شریف کے ہی لوگ ہیں جو عمرانی حکومت کو اپنی ٹھوکر پر رکھ کر خاک کی طرح اْڑا رہے ہیں ۔ یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ ہر شخص کا سیل فون اپنی حیثیت میں ٹی وی پروگرام کا مالک بن گیا ہے ورنہ سو کالڈ بڑے چینل کے اینکروں نے سوائے چند درمیانے درجہ کے لیڈروں اور کارکنوں کو لفٹ کرواتے ورنہ ان کی نظر میں ڈاکو خائین اور لٹیرے ہی سیاست دان ہیں جن کو وہ قومی سیاست کا مداوا سمجھتے ہیں باقی اْن کی نظر میں ”اویں ”ہیں ۔
قارئین وطن! فیس بک آج اتنا بڑا اظہارِ خیال کا پیڈیسٹل ہے کہ اْس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور مجھ جیسے سیکڑوں پولیٹیکل ورکر کا ماؤتھ آرگن ہے کہ ہم اپنے مافی الا ضمیر کوبیان کرسکتے ہیں ورنہ اِ ن پڑھے لکھے لوگوں نے کب ہماری زبان سمجھنی تھی ،کچھ دن ہوتے ہیں میرے شفیق دوست مینٹر اور ” جونیجو مسلم لیگ ” کے صدر محترم ” اقبال ڈار” صاحب نے فیس بک کی وال پر ایک بیان لگایا کہ تمام ہم خیال لوگوں کا ایک اجلاس بلانا چاہئے ۔ اس سے پہلے کہ میں اْس بیان کی تفصیل میں جاؤں میں اپنے ” قارئین” کا اقبال ڈار صاحب کی ذاتِ گرامی سے تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں اقبال ڈار صاحب کا تعلق ویسے تو پہلوانوں کے شہر گجرانوالہ سے ہے لیکن بزرگوں کا کاروبار حیدرآباد سندھ میں ہونے کی وجہ سے اْن کی ابتدائی تعلیم بھی وہیں پر ہوئی اور وہیں سے اپنی سیاست کا آغاز بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا یہ مسلم لیگ کا وہ زمانہ تھا جب کونسل کنونشن اور قیوم مسلم لیگوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے جبر اور خوف سے گھبرا کر پیر پگاڑا کی سرپرستی میں پاکستان مسلم لیگ کی شکل میں دے دی جس میں کنونشن لیگیوں کا قبضہ ہو گیا پھر ضیاالحق کی حکومت آگئی اور محمد خان جونیجو ملک کے پرائم منسٹر بنائے گئے ،اْسی دور میں غلام حیدر وائیں نے ینگ اور متحرک نوجوان اقبال ڈار کو پورے پاکستان میں مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشین ”MSF” قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی ڈار صاحب نے دن رات ایک کر دیئے MSF بنانے میں اور اس کے ساتھ ساتھ اْن کو اقتدار کے ایوانوں میں بھی رسائی مل گئی آج پورے ملک میں مسلم لیگ کی اساس سمجھنے والا کارکن اگر ہے تو وہ ڈار صاحب ہیں لیکن اْن کی تنگ دستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بونے مسلم لیگر مسلم لیگ اور اقتدار کے عہدوں پر فائز ہیں نواز شریف نے اْن کی خدمت حاصل کرنے کے لئے ”دھن دھونس طاقت” کا مکمل استعمال کیا لیکن یہ مردِ درویش اْس کے ہتھے نہ چڑھا آج اْس نے اپنے ضمیر کی آواز کو بلند رکھا ہے اور بجائے ل،ن،م،ق کا حصہ بنتا اس نے اپنی غریبی میں جونیجو مسلم لیگ کا پرچم تھاما ہوا ہے حالانکہ ان کا مقام قائد اعظم اور مادرِ ملت فاطمہ جناح کی پاکستان کونسل مسلم لیگ تھی لیکن اْن کے جذبے کو سلام کرتا ہوں کہ وہ کسی ڈاکو لٹیرے اور خائین کے سامنے جھکا نہیں اور اْن کی لوٹ کی دولت نے اْن کی آنکھوں کو چند یا نہیں ۔ میں نے اْن کی ” ہم خیال ” دوستو کو گھمبیر مسائل میں گھرے ملک کے بارے سوچ و بچار کے لئے دعوت دینے پر بڑا مشکور ہوں ۔ راقم چونکہ ایک پولیٹیکل ورکر بھی ہے اور ایک سیاسی جماعت کو ہیڈ بھی کرتا ہے اْن کی دعوت پر لبیک کہا اور میں نے کہا کہ ملک کو نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور عمران کے کرپٹ ساتھیوں کے خلاف جہاد کے لئے تیار ہوں میں نے مزید کہا کہ ڈار صاحب اس وقت بہت سی فورسز ہمارے سلامتی کے اداروں کے خلاف کام کر رہی ہیں ہمیں اْن کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اس پر ایک صاحب آگ بگولہ ہوئے اور برُا بھلا کہا اور میرے ایک نہایت ہی محترم دوست سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ لاہور کے ممتاز وکیل”شاہد محمود بھٹی” کیانی ہال کی ایک زندہ و جاوید آواز نے میرے بییانیہ پر فیس بک پر جواب دیا کہ یہ میری لیڈر محترمہ فاطمہ جناح مادرِ ملت کی پالیسی نہیں تھی اور نہ ہی میرے والد سردار محمد ظفراللہ ایڈوکیٹ کی تھی۔
قارئین وطن! میں نے بڑے ادب سے محترم بھٹی صاحب سے استفسار کیا کہ مجھے گائیڈ کریں کہ میں ملک کی دولت لوٹنے والے ڈاکوئوں ،لٹیروں، خائین اور ملک کی سلامتی کے خلاف کام کرنے والوں کو کس نام سے پکاروں، اُن کو ادب کے خانے میں کہاں سجاؤں؟ بھٹی صاحب بہت بڑے جمہوری پسند ہیں انکی پیپلز پارٹی کے لئے بڑی جدوجہد ہے تو پھر تو اْن کو اس نا چیز کی بات سمجھ آنی چاہئے کہ آج ذوالفقار علی بھٹو شہید زندہ ہوتے تو وہ ان چوروں لٹیروں اور خائین لوگوں کو برداشت کرتے ، بھٹی صاحب اب کیانی ہال میں آپ اور چوہدری عبدالحفیظ صاحب ہی ملک سعید حسن مرحوم اور رانا اعجاز مرحوم کے بعد رونق ہیں اور جمہوریت کی شمع کو جلائے رکھنے والے اللہ آپ کو اور تمام دوستو کو خوش و خرم رکھے اور مجھ کو اِذن دیں کہ وطن دشمنوں کے سامنے استادہ رہوں ۔ میں پھر کہوں گا کہ اقبال ڈار صاحب نے جو ملک کے حالات پر ہم خیال لوگوں کا اجتماع بلایا ہے اْس کا حصہ بنیں کہ ضروری نہیں کہ اسمبلی میں بیٹھے لوگ ہی ہمارے دکھوں کا مداوا کرنے والے ہیں یہ ملک ہم سب کا ہے ہم سب کی ذمہ داری ہے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ملک کی خیر مانگیں۔
٭٭٭