” حلال فوڈ کی
نگرانی ضروری”!!!
نیویارک سمیت امریکہ بھر میں مسلم و پاکستانی کمیونٹی کی اولین ترجیح حلال کھانا ہوتا ہے ، یہاں تک کہ معروف فوڈ چین کے ایف سی اور میکڈونلڈ سے خریداری کرتے وقت بھی اس چیز کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ جو برگرز ہم خرید رہے ہیں اس میں حلال چکن موجود ہے ، لیکن ہماری یہ کارروائی صرف ہماری ذات کی حدتک محدود ہوتی ہے ہم دکاندار سے حاصل کردہ چکن پر لگے لیبل کو پڑھ کر ہی اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ اس میں موجود چکن یا گوشت حلال ہے لیکن اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پاتی ہے ، مسلمانوں کے برعکس یہودی کمیونٹی کی بات کی جائے تو انھوں نے کوشر گوشت یا چکن کی نگرانی کے لیے ایک الگ ادارہ قائم کر رکھا ہے جوکہ مختلف سٹورز، مارکیٹس اور دکانوں پر جا کر یہ یقینی بناتا ہے کہ یہاں رکھا گیا کوشر چکن یا گوشت 100فیصد کوشر ہی ہے ، اس کو کس مارکیٹ یا کس کمپنی سے خریدا گیا ہے پھر آرگنائزیشن اس کمپنی یا مارکیٹ کا بھی وزٹ کرتی ہے اور یقینی بناتی ہے کہ دکانوں اور سٹورز پر فروخت ہونے والا کوشر چکن حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے لیکن مسلم اور پاکستانی کمیونٹی ابھی تک ایسی کوئی تنظیم یا ادارہ بنانے میں ناکام رہی ہے جوکہ حلال فوڈ اور حلال گوشت کی نگرانی کے عمل کو یقینی بنا سکے ، نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز کی صدارت میں ہونے والی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں ادارہ ”پاکستان نیوز” کے پبلشر مجیب لودھی نے میئر ایرک ایڈمز کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تو انہیں بہت سراہا گیا جس کے بعد میئر نے اپنی مشیر کو فوری طور پر مجیب لودھی سے رابطہ کر نے اور اس حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایات دیں، پاکستانی و مسلم کمیونٹی کو اس رجحان کو اپنانا ہوگااور اس کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرنا ہوگی ۔حلال فوڈ سے مراد محض چکن اور بیف ہی نہیں بلکہ حلال فوڈ میں سروسز (خدمات)، مشروبات، کاسمیٹکس، فارماسیوٹیکلز، پرفیوم حتیٰ کہ چاول، پانی، پولٹری کی خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات بھی شامل ہیں جن کی تیاری کے عمل کے دوران استعمال کئے جانے والے تمام کیمیکلز اور Additives میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرام عنصر شامل نہ ہو۔ حلال ایک اسلامی قدرہے جس کی رو سے ان مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں کوئی حرام عنصر یا عمل شامل نہیں کیا گیا ہو۔ دراصل دنیا میں گوشت کے علاوہ کھانے پینے اور استعمال کی جانے والی اشیائ میں بہت سے حرام عنصر استعمال کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اشیائ حلال نہیں رہتیں جن کا بحیثیت مسلمان ہمارے لئے جاننا نہایت ضروری ہے۔حلال سرٹیفکیشن کرتے وقت پروڈکٹ اور اسے بنانے کے پروسیس دونوں کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر ان دونوں میں کوئی حرام چیز استعمال نہیں کی گئی تو اس کا حلال سرٹیفکیشن جاری کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی ممالک کو کپڑے اور ٹیکسٹائل کی بہت سی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔حلال انڈسٹری کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کی حلال مارکیٹ ایک ٹریلین ڈالر سے لے کر 2 ٹریلین ڈالر سالانہ تک کی ہے۔ یورپ میں حلال مارکیٹ کا بزنس تقریباً 66ارب ڈالر، فرانس کا 17ارب ڈالر سے زائد اور برطانیہ میں 600 ملین ڈالر کا حلال گوشت سالانہ فروخت کیا جاتا ہے۔ امریکی مسلمان تقریباً 13ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈ پر صرف کرتے ہیں جبکہ خلیجی ممالک کی حلال فوڈ کی درآمدات سالانہ تقریباً 44ارب ڈالر کی ہیں۔ بھارت میں حلال فوڈ کی فروخت21ارب ڈالر سالانہ جبکہ انڈونیشیا جو بہ لحاظ آبادی دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے میں حلال فوڈ کی درآمدات70ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈونیشیا کو سب سے زیادہ بیف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح برازیل سے ایک ملین حلال منجمد چکن 100 سے زائد ممالک کو برآمد کئے جانے کے علاوہ اس کا 3 لاکھ میٹرک ٹن حلال بیف سعودی عرب، خلیجی ممالک، مصر اور ایران کو برآمد کیا جاتا ہے۔ ہر سال فرانس سے ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کئے جاتے ہیں۔ امریکہ دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے جس کی فوڈ کی برآمد میں حلال بیف کی برآمدات 80 فیصدہیں۔ نیوزی لینڈ دنیا میں بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹرز ہے اور اسکی حلال بیف کی برآمدات 40 فیصدہیں۔ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے ترقی پذیر حلال مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ حصے کیلئے کوشاں ہیں۔ حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کا اسٹینڈرڈ انڈونیشیا، ملائیشیا اور بہت سے غیر مسلم ممالک بشمول چین، تھائی لینڈ، فلپائن، فرانس، نیدرلینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، برازیل اور امریکہ میں نافذ العمل ہے۔ اس وقت دنیا کے 25 ممالک میں حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کے 200 سے زائد ادارے ہیں۔ اس لیے امریکہ میں مقیم پاکستانی و مسلم کمیونٹی کو حلال فوڈ کے بارے میں زیادہ غور کی ضرورت ہے، اس کی نگرانی اور دنیا بھر میں ایکسپورٹ کے لیے ادارے اور کاروباری کمپنیاں تشکیل دی جائیں ۔
٭٭٭










