ماشاء اللہ ہمارے وزیراعظم شہبازشریف کو بولنا آگیا ہے حال ہی میں انڈیا اور پاکستان کی تین دن کی ملی جلی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی اجازت سے کہ عوام کی نظر میں اپنا کریڈٹ بنا لو اور شہباز شریف شاہد سو کر اٹھے تھے ان کا فرمان آگیا ”ہم نے1971کا بدلہ لے لیا” آپ یقین کریں اور نہ کریں تو اُن کی ذات پر کیا فرق آئے گا آج کل کوئی بھی چینل کھولیں شہنشاہ پاکستان عاصم منیر کی شان میں قوالیاں گائی جارہی ہیں۔ میڈیا پر بھی بوچھاڑ ہے، سارے فوجیوں کی اُولادیں اپنے اپنے انداز میں فوج کی تعریف کر رہے ہیں جوان کا مشغل ہے لیکن اس میں وہ جنرلز کا ذکر نہیں کررہے ہیں یہ اچھی بات ہے۔ انڈیا خاموش ہوگیا ہے اور وقتاً فوقتاً وہ پاکستان کے خلاف اپنی حرکتوں سے باز آنے والا نہیں اس میں سب سے آگے جاوید اختر مشہور فلمی شاعر اور سلیم جاوید کےHALFپاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ مودی نے انہیں یہ مشن دیا ہو یا وہ ”ہندوتوا” کے کرتا دھرتا ہوں۔ پہلی بار وہ ایک فلم فیئر ایوارڈ میں اپنا ایوارڈ لینے آئے1995کی بات ہے فلم لو اسٹوری1942 ”تھی گانا تھا” ایک لڑکی کو دیکھا ایوارڈ لینے کے بعد بہک گئے اور بولے ہم وہ نہیں جن کی بغل میں بم رکھے ہوں ان کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا عوام نے توجہ نہ دی اُن کے پاس دو اعزاز اور بھی ہیں وہ شبانہ اعظمیٰ کے شوہر ہیں اور ان نثار اختر کے صاحبزادے بھی۔ لیکن اُن کی پہچان یہ ہی ہے کہ وہ کسی کے دوست نہیں یہاں نیویارک میں علی گڑھ المنائی کے سالانہ فنکشن میں دوبار آچکے ہیں لیکن ہم نے اُن سے ہاتھ ملانا مناسب نہیں سمجھا کہ ہر چند ہم پیدا تو انڈیا میں ہوئے لیکن پاکستانی پاسپورٹ لے کر امریکہ آئے تھے حل ہی میں جاوید اختر نے غلیل سے پتھر پھینکا بولے ”کہ اگر مجھے پاکستان اور جہنم کیCHOICEدی جائے تو میں جہنم کو ترجیح دونگا جاوید اختر سے ہم یہ ہی کہہ سکتے ہیں جاوید صاحب یہ کہنے کی ضرورت نہیں آج کل90فیصدی لوگ جن میں امارات کے شیخ، شہزادہ اوبحرین کے شاہ کے علاوہ پاکستان کی اشرافیہ، کاروباری لوگ اور امریکہ میں گوشت ریستوران اور کنٹرکشن کا کاروبار کرنے والے سب کے سب جہنم کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ہمیں نیوجرسی میں قیام پذیر بھتیجے ڈاکٹر نوید نے بتایا ہمارے پوچھنے پر کہ قربانی کہاں کی تو یہ جواب سن کر ہم چونک پڑے کہ قربانی نیوجرسی میں شریاء بورڈ سے سندیافتہ سے کرائی ہے اور کوئی بھی بکرہ پسند کرلو قیمت600ڈالر ہے تمہارا مطلب600ڈالر؟ اُن کا جواب تھا ”جی” سمجھ سے باہر ہے کہ قربانی کے بکرے جو بے بی گوٹ کے زمرے میں نہیں آتے وہ تو سستے ہونے چاہئے تھے۔ اگر وزن50پونڈ بھی ہے جو ہوتا ہے تو یہ تو لوٹ مار ہے۔ خیال رہے نیویارک میں بے بی گوٹ 10ڈالر پونڈ ہے اور نیوجرسی میں13ڈالر پونڈ، حالانکہ بکرے نیوجرسی سے ہی نیویارک میں داخل ہوتے ہیں۔ پھر ٹول بھی دینا پڑتا ہے تو ایسا کیوں ہے جو اب کچھ بھی ہمارا کہنا ہے نیوجرسی والے اس کاروبار میں مہذب کے نام پر ڈاکے مار رہے ہیں اور جہنم کا راستہ بنا رہے ہیں مبارک ہو جاوید اختر صاحب کو کہ اُن کے جاننے اور اُن سے محبت کرنے والے یہاں وہاں اوپر نیچے چھا گئے ہیں ادھر اعلان ہوا کہ گائے کے گوشت کی قیمت بڑھ جائے گی بیچنے والوں نے فوراً عمل کیا۔ ہماری مبارکباد اور خوشی کہ جنت میں ہجوم کم ہوگا یہاں مرزا غالب کا ایک شعر جڑ دیتے ہیں۔
”ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت کیا ہے
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”
اور گوشت بیچنے والے جون ایلیا کے اس شعر کو دماغ میں رکھیں۔
”حاصل زندگی، حسرت کے سوا، کچھ بھی نہیں
یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں یہ ملا نہیں وہ رہا نہیں
اُن کے لئے جو قناعت پسند نہیں۔ وہ بھی جو زیادہ سے زیادہ کی تمنا لئے لوٹ مار میں مصروف ہیں اور ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ یہ کروالو وہ کروالو۔ مکان بنوالو، ایک ایسے ہی پاکستانی لیٹرے کنٹرکشن کے کنٹریکٹر نے ہمارے ڈاکٹر دوست کے دروازے کی گھنٹی بجائی دروازہ کھلا ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کیا چاہئے اور آپ کون ہیں خیال رہے ڈاکٹر ایک شریف اور اصولوں کے پابند قناعت پسند انسان ہیں۔کنٹریکٹر صاحب
٭٭٭٭٭











