عسکری جمہوریت اور کچرہ !!!

0
78
شبیر گُل

اللہ رب العزت نے انسان کو انتہائی خوبصورت بنایا۔بیش بہا نعمتیں عطا فرمائیں۔ وہ رازق ہے۔ وہ مالک ہے۔ ہماری accountability کا مالک ہے۔ اسکی وحدانیت پر یقین تقوی پیدا کرتا ہے۔ تقوی خوف خدا پیدا کرتا ہے۔ انسانیت سکھاتا ہے۔ لیکن کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ہم اللہ رب العزت کو جوابدہ ہیں۔ ہمیں یہ احساس نہیں کہ ہم نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ظلم،جبر،فاشزم ،بربریت اور حیوانیت کی جو مثالیں موجودہ دور میں قائم ہوئی ہیں۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ حکمرانوں کے دل پتھر اور بے رحم ہیں۔ جنہیں اپنی رعایا کا، غریبوں کی کسمپرسی کا، بیروزگاری کا، کوئی احساس نہیں۔ جرنیلوں اور سیاسی گماشتوں کے پاس یہ عہدے چند روزہ ہیں لیکن اس کا حساب انتہائی سخت اور بھیانک ہے۔ ہمارے جرنیل اورہمارے سیاستدان ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دے پائے جہاں لوگوں کو روزگار ملے۔ لوگ ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔گزشتہ دنوں یونان میں انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ۔ روزگار کی تلاش میں پاکستان چھوڑنے والے سینکڑوں پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہوئے۔ یہ انتہائی دردناک، افسوسناک اور اندوہناک واقعہ ہے۔ یونان کے کوسٹ گارڈز نے انتہائی بے دردی سے ڈوبنے دیا گیا۔ ان بچوں کے گھر والے خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ چار سو پاکستانی اس جہاز میں سوار تھے۔ حکومت نے اس مسئلہ کو کسی فورم پر نہیں اٹھایا۔ جو قابل مذمت ہے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے، دوسو گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ قوم سوگوار ہے۔ حکمران کوئی معاشی پالیسی نہیں بنا سکے۔ قائداعظم نے کہا تھا یہ ریاست لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے گی۔ مگر افسوس !۔میں کہنے پر مجبور ہوں کہ یونان کے ساحل پر ڈوبنے والے پاکستانیوں کی یہ بے گوروکفن لاشیں پاکستانی حکمرانوں کی لاشیں ہیں۔یہ طبقاتی نظام کی لاشیں ہیں، یہ عدل و انصاف کی لاشیں ہیں۔ یہ وڈیرہ شاہی کی لاشیں ہیں ۔یہ میرٹ کی لاشیں ہیں۔ یہ غیر منصفانہ تقسیم کی لاشیں ہیں ۔ یہ باصلاحیت لوگوں کی صلاحیتوں کی ناقدری کی لاشیں ہیں۔ یہ ملک میں غیر مساویانہ رزق کی تقسیم کی لاشیں ہیں۔ یہ اشرافیہ کی لاشیں ہیں۔یہ بوسیدہ نظام کی لاشیں ہیں۔یہ ستر سال ملک کو تباہ کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کی لاشیں ہیں۔ نو مئی ہی بلیک ڈے کیوں؟ کیا انسانی جانوں سے بڑھ کر املاک اور فرنیچر ہے ؟ آج دوسو پاکستانی یونان میں ہلاک ہوئے ، میں اسے بلک ڈے قرار دیتا ہوں، حکومت کی کوئی رٹ نہیں،بے حسی اور بے رحمی ہے۔ اپنے کیس ختم کروانے ، اور مراعات بڑھانے سے فرصت نہیں ۔ عوام کا کیا سوچیں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، وزیرِداخلہ رانا ثنااللہ اور خواجہ آصف کی اوٹ پٹانگ بیانات سے ظاہر گوا کہ خواجہ ا آصف جیسے شخص کے سر میں جوتے اور کوڑے دان میں ہونا چاہیے۔ زیادہ بھونکنے والے جوتوں کے مستحق ہوا کرتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے خلاف خواجہ آصف کے بیہودہ بیانات انکے منہ پر کالک کو صحیح ثابت کرتا ہے۔ حکمرانوں کے خلاف وکلا نے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔جسے روکنے کے لئے پانچ ارب روپے کی آفر کی گئی ہے۔ کراچی کا الیکشن ایک ارب لگا کر مئیر کی سلیکشن کی گئی ہے۔ سینٹ کے ایک ایک ووٹ کو پچاس پچاس کروڑ میں خریدا جاتا ہے۔ عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی ساری انرجی گدھے خریدنے پر صرف ہورہی ہے۔ ان درندوں سے قوم کی جان کب چھوٹے گی۔ یہ اشرافیہ اقتدار کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ قوم صرف ووٹ دینے اور آوے ای آوے اور جاوے ای جائے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت نے کراچی کے ووٹرز کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا۔ انکی نزدیک الیکشن نہیں سلیکشن ہونا چاہئے۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن نے ثابت کردیا کہ آئندہ الیکشن اسی طرز پر ہونگے۔ مرتضیٰ وہاب اس عورت فوزیہ وہاب (میرا جسم ،میری مرضی) کا بیٹا ہے،میئر منتخب ہونے کی خوشی میں ساری رات شراب و کباب کی محفل میں ناچتے رہے،ووٹ دیکر کامیاب کرانے والے صلوا توبہ پڑھ لیں۔اس کے مقابلے میں ایک حافظ قرآن کو شکست سے دوچار کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جن پر یہودیوں کا لیبل لگایا گیا تھا نے ایک شرابی کے مقابلے میں حافظ قرآن کو ووٹ دیا،ذرا سوچئے۔
اور جو لوگ جمعیت علما فضل الرحمان جو ہمیشہ سے اسلام کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں کہ ہمارا نشان اللہ کی کتاب ہے، اس نے اللہ اور اسلام والے ایک حافظ کے خلاف میرا جسم میری مرضی والے کو سپورٹ کیا تو کیا یہ لوگ اسلام لانے والے ہیں ؟؟ کیا یہ ڈیزل ہمیشہ سے اسلام کے نام پر اسلام کو بار بار نقصان نہیں پہنچا رہا؟کیا اس غنڈے ڈیزل کے پارٹی کے ساتھ اسلام کا لفظ لگانا مناسب ہے ؟کیا ڈیزل لوگوں کو بار بار دھوکہ نہیں کر رہا؟
لوگ تب سمجھیں گے جب ایسے دفاک مولوی پاکستان کو اور بھی بردباد کریں،شکست کی خوف سے پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ وکلا نے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جیسے روکنے کے لئے پانچ ارب روپے کی آفر کی گئی ہے۔ کراچی کا الیکشن ایک ارب لگا کر مئیر کی سلیکشن کی گئی ہے۔ سینٹ کے ایک ایک ووٹ کو پچاس پچاس کروڑ میں خریدا جاتا ہے۔ عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ عسکری جمہوریت کنٹرولڈ ڈیموکریسی ، کنٹرولڈ سیاست، کنٹرولڈ عدلیہ ، کنٹرولڈ سینٹ، کنٹرولڈ پارلیمنٹ، کنٹرولڈ نظام عدل، کنٹرولڈ صحافت مرکز یقین شاد باد ۔ریموٹ سے سارے نظام کو کنٹرول کررہا ہے۔ جہاں جمہوریت شو کیس میں بند ہے۔ وقتا فوقتا اس کی منہ دکھائی کی رسم ادا ہونے کے بعد لحاف میں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہے تاکہ شالا نظر نہ لگے۔ جمہوریت اور جمہوری ادارے ، عسکری ٹاور کی طرح جی ایچ کیو سے کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ پیا من بھائے کے مصداق ،جس پر نظرعنائت ہو جائے حکومت کا طوق اسی کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کراچی میں جمہوریت کا قتل ہو یا عوامی مینڈیٹ کا قتل ،عسکری جمہوریت کے تخلیق کاروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اندرونی اور بیرونی سرحدوں کے مخافظوں کی نگرانی میں کراچی کے مینڈیٹ کو ذبیح کردیاگیا۔جمہوریت کے چیمپئنز کا کراچی میں فاشزم ،پیپلز پارٹی کا پچاس سال بعد بھی وہی طرزعمل ۔ خلائی مخلوق کی طلسماتی سلیکشن برقرار،اسٹیبلشمنٹ کے منہ پر کالک اور جمہوریت ایک بار پھر قصائیوں کے ہتھے چڑھ گئی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا۔اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔ فسطائیت کا بول بالا۔ اسٹبلشمنٹ اور سپریم کورٹ کا ہیرا منڈی کی نائیکہ کا کردار ۔غیرت پر بیغرتی کو سبقت۔شرافت پر بدمعاشی کا غلبہ۔ یہ اشرافیہ اقتدار کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ قوم صرف ووٹ دینے اور آوے ای آوے اور جاوے ای جائے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن نے پثابت کردیا کہ آئیندہ الیکشن اسی طرز پر ہونگے۔شکست کیخوف سے پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ مشرقی پاکستان میں عورتوں اور بچوں پر ظلم و تشدد ۔شاہی قلعہ ،دلائی کیمپ پیپلز پارٹی کے تحفے تھے۔ موجودہ بلدیاتی الیکشن ۔کراچی میں پیپلز پارٹی کی فسطائیت نے بھٹو کی جمہوریت کو زندہ کردیا۔جو سندھ کے وذیرے ہاریوں سے کرتے ھیں ، وہی طرزق اپنایا گیا۔ ن کسی عدالت کو مانا جارہاہے۔ نا آئین کاور قانون کو۔ سانحٔہ ماڈل ٹان اور موجودہ بربرئیت ن لیگ کے تحفے ہیں۔ پولیٹکل پارٹیز اور انکی لیڈرشپ فاشسٹ ذہنیت اور مخالفوں کو کچلنے کی اپروچ ہو تو وہاں جمہوریت کا جنازہ ہی اٹھتا ہے جسے کندھا دینے ولے بھی میسر نہیں آتے ۔ وزیرِداخلہ رانا ثنااللہ ماضی کا مصطفے کھر ہے اسٹبلشمنٹ بار بار ٹیسٹ ٹیوب بیبی کے تجربات نہ کرئے ۔ اسٹبلشمنٹ ، الیکشن کمیشن ،اور عدلیہ سیاست سے دور رہے۔ اسٹبلشمنٹ کو کبھی ایک اور کبھی تیرہ لاشے اپنے کندھوں پر اٹھانے سے بہتر ہے کہ سیاست سے دور رہیں۔ چوروں کی بیبیزرداری بہت confident ہے۔ کہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلق ٹھیک ہے۔ اسکی کی پانچواں گھی میں ہیں۔ کراچی کے الیکشن میں کھلی وحشت ودہشت سے آسے مزید اعتماد ہو چکا ہے۔ ن لیگ حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں کررہی۔ انکی خاندانی سیاست کا کچومر نکلنے والا ہے۔ جنہیں یہی معلوم نہئں کہ آلو اور ٹماٹر کتنے میں کلو ملتے ہیں یا درجن میں ؟ انڈے درجن میں ملتے ہیں کہ کلو میں ، یہ وہ دونوں نمونے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انکے کریمنل باپ انہیں ہر صورت مسند اقتدار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انکی پارٹیاں خاندانوں میں گردش کرتی ہیں۔ نواز، شہباز، حمزہ، مریم، اسحاق وغیرہ۔ زرداری، بلاول، فریال، مفتی محمود، فضل الرحمن،عطا الرحمن، اسد الرحمن،باچا خان، ولی خان، اسفندیار،عامل ولی، اس خاندانی سیاست اور اقربا پروری نے ملکی سیاست کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے۔ کہ جمہوریت کمزور اور صرف کتابوں، لفافوں اور تقریروں میں ملی۔
آج کے صحافی قلم بیچ رہے ہیں۔ جب صحافیوں کی زبان لفافے میں ہو تو زمینی خداں کو لاٹھی گولی اور غنڈہ گردی میں چھوٹ مل جاتی ہے۔ دنیا میں کونسا ملک ایسا ہے۔ جہاں مخالفین کی عورتوں اور بچوں کو آدھی رات کو گھروں سے اٹھایا جائے۔ گھروں کو گرا دیا جائے۔بزنس تباہ کردئیے جائیں۔ رشتہ داروں پر مقامات بنائے جائیں ۔بیرون ملک پاکستانیوں کو بے شرم کہا جائے۔ قوم ہیجان میں ہے۔ جب ہیجان میں ہو تو دماغ ماف ہو جاتا ہے۔ عقل و شعور کے سوتے بند ہو جاتے ہیں۔ عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے۔ مکافات عمل انہیں بھی گزرنا پڑے گا۔ ان حالات میں سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر ملکی معاملات اور حالات کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔ تاکہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو منہ کی کھانا پڑے۔ملک پہلے ہی تباہی کی دبانے پر پہنچ چکا ہے۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ تقریبا بند وچکی ہے۔ شیل آئل اور سوز وکی نے پاکستان میں آپریشن بند کردیا ہے۔ آئی ایم ایف ,29 جون کی میٹنگ میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here