اقوام متحدہ کی اپیل پر عالمی برادری نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے 131ارب روپے کی نقد امداد کا وعدہ کیا ہے۔یہ امداد ملنے میں کتنا وقت لگتا ہے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن پچھلے چند ہفتوں سے عالمی برادری نے جو لاتعلقی کا جو رویہ اختیار کررکھا تھا وہ ہمدردی میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ امریکہ کی جانب سے مزید 3کروڑ ڈالر کینیڈا نے 50لاکھ ڈالر ،آسٹریلیا اور آذربائجان نے بیس بیس لاکھ ڈالر اور برطانیہ نے پندرہ لاکھ پاونڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔سپین تین لاکھ یورو دے گا۔بنگلہ دیش اور ایران نے بھی امدادی سامان ارسال کرنے کا اعلان کیا ہے۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے عالمی برادری کو بیدار ہونا ہو گا ماحولیاتی تغیر سے آنے والی تباہی کل کسی دوسرے ملک کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ وطن عزیز میں سیلاب کی وجوہات اور انتظامی خرابیوں کے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں ایک رپورٹ 2010 کے سیلاب کے بعد ترتیب دی گئی۔اس رپورٹ میں ماحولیاتی پیش گوئی کے جدید آلات کی ضرورت اجاگر کی گئی۔سیلاب کے دوران فصلوں اور آبادیوں کی تباہی کی وجوہات کا ذکر کیا گیا۔ بتایا گیا کہ کئی بااثر افراد نے اپنے کھیت محفوظ رکھنے کے لئے حفاظتی بند توڑ دیے۔حالیہ سیلاب کے دوران بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جب مقامی انتظامیہ کے اہکار کسی طاقتور شخصیت کی اراضی بچانے کے لئے حفاظتی بند توڑنے پہنچے۔ایک واقعہ میں تو مقامی آبادی نے ان اہلکاروں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔ بہرحال یہ ایک المیہ ہے کہ سیاسی، انتظامی طاقت رکھنے والے افراد نے سیلاب کے انسداد یا اس سے پہنچنے والے نقصانات کا رخ پہلے سے کچلے ہوئے غریب لوگوں کی طرف کیا۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ اب ان ہی سرداروں جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے ڈیروں پر عوام کی طرف سے عطیہ کیا گیا امدادی سامان تقسیم کر کے ان کو ہمدرد اور عوام دوست ثابت کیا جا رہا ہے۔حالیہ سیلاب کے متعلق دو طرح سے کام ہونا چاہیے۔پہلا کام یہ کہ حکومت ماحولیاتی تبدیلیوں سے قبل از وقت آگاہی کے جدید آلات حاصل کرے۔ دوسرا کام یہ کہ پتہ چلایا جائے کہ بارشوں کی شدت کو ملحوظ خاطر رکھ کر متعلقہ ادارے سیلاب کی صورت حال سے قبل از وقت باخبر کیوں نہ ہو سکے۔ یہ اسی نوع کا واقعہ ہے جیسا رواں سال کے آغاز میں مری میں برفانی طوفان کی وجہ سے درجنوں ہلاکتوں کا ہے۔محکمہ موسمیات کو ان خطوط پر منظم کیا جانا چاہیے کہ لوگ دور دراز کے علاقوں کا سفر کرنے سے قبل اس محکمے سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ جو علاقے تفریحی لحاظ سے اہم ہیں وہاں نمایاں مقامات پر موسم کی صورت حال بتانے والے مراکز ہونے چاہئیں۔ ہنگامی صورت حال میں اس بات کا پہلے سے اندازہ ہونا چاہیے کہ کس علاقے میں کیا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جن علاقوں میں لینڈسلائیڈنگ پل ٹوٹنے اور طغیانی کا خطرہ ہو وہاں اسی مناسبت سے حفاظتی انتظامات ہونے چاہئیں۔سیلاب کے بعد جونہی بحالی کا کام شروع ہو تو ان موسمیاتی مراکز کے قیام کو پہلی ترجیح رکھا جائے۔بتایا جا رہا ہے کہ ملک کا ستر فیصد سے زائد علاقہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔وطن عزیز میں حکومتی نمائندوں ،سرکاری محکموں اور ٹھیکیداروں کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ عشروں سے روبہ عمل ہے۔ کسی تعمیراتی منصوبے کی لاگت اصل تخمینے سے کئی گنا بڑھا کر بتائی جاتی ہے۔لاگت منظور ہونے کے بعد ہر فریق کو مقررہ حصہ مل جاتا ہے۔اس کمیشن بانٹ میں منصوبہ کا ٹھیکیدار غیر معیاری میٹریل استعمال کرتا ہے اور یوں قوم کے وسائل، وقت اور توانائی خرچ ہونے کے بعد ایک غیر معیاری منصوبہ مکمل کر کے داد و تحسین وصول کی جاتی ہے۔یہ امر لائق توجہ ہے کہ انگریز حکمرانوں نے سوسال پہلے جو منصوبے تعمیر کرائے ان میں سے بیشتر اب تک اچھی حالت میں ہیں۔اب جبکہ عالمی برادری کی طرف سے بحالی کے منصوبوں کے لئے نقد امداد موصول ہو رہی ہے تو اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ امدادی رقوم بدعنوانی کی نذر نہ ہونے پائیں۔ترجیحاتی فہرست میں پل سڑکیں گھر آبی گزر گاہیں۔ سکول ہسپتال اور منڈیوں کی تعمیر ہونی چاہیے۔ تعمیرات دریائی گزرگاہوں سے ہٹ کر ہوں اور پورے عمل کی شفافیت پر نظر رکھنے کا انتظام ہو۔ تعمیراتی منصوبے گھروں سے متعلق ہوں سرکاری عمارات ہوں یا ہوٹلوں کی تعمیر ،حتی الامکان کوشش کی جائے کہ ایسی بلند جگہوں پر ہوں جہاں حالیہ سطح کے سیلاب جیسی آفت لوگوں کو متاثر نہ کر سکے۔سب سے ضروری یہ کام ہے کہ تونسہ میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں آنے والے بارشی پانی کو کسی آبی ذخیرہ گاہ میں ڈالنے کا انتظام ہونا چاہیے۔اس سے انسانی زندگی اور املاک کو تحفظ ملے سکے گا ،ساتھ ہی پانی کی کمی والے ایام میں جانوروں اور فصلوں کے لئے پانی دستیاب ہو سکے گا۔میانوالی کے پاس دریائے سندھ میں طغیانی کی صورت میں اضافی پانی کے لئے کسی بڑی جھیل یا ڈیم کی ضرورت ہے۔دریائے سوات کے اردگرد کے علاقوں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے ذخیرے بنا کر ماہی پروری کی صنعت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، وہاں سیلاب کی صورت میں پانی کو انسانی آبادی اور انفراسٹرکچر کو برباد کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ حکومت کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے پورے ملک میں کام فوری شروع کر دینا چاہیے اس عمل میں سیاسی پسند نا پسند کو قطعی اہمیت نہیں ملنی چاہیے۔
٭٭٭