فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
33

محترم قارئین! اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے کہ”بے شک ہم ہی نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں” قرآن کریم کے نزول کے بارے میں دو صیفے استعمال ہوئے ہیں ایک اَنزّلَ دوسرا نزّل پہلے کا معنیٰ ہے”یک ہار گی اتارخا” اور دوسرے کا معنی ہے ”تھوڑا تھوڑا کرکے آہستہ آہستہ اتارنا” اس میں علماء کرام نے تطیبق یوں دی ہے کہ اَنزّل کی شان اس کا لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر بیت العزت پر اتارنا مراد ہے۔ چونکہ وہاں جبریل امین علیہ السلام ایک ہی دفعہ پورے کا پورا قرآن پاک لے آئے۔ پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا حسب منشا نے خدا حضورۖ پر اترتا رہا یا حسب تقاضائے حکمت اترتا رہا۔ اس لئے آسمان دنیا سے حضور علیہ السلام کی ذات پاک پر نزول نزل کی شان کے مطابق ہوا اس آیت میں دو باتوں کا ذکر ہوا ہے ،ایک قرآن کے نزول کا جو تھوڑا تھوڑا23سال اترتا رہا۔ دوسری بات حفاظت قرآن کا مسئلہ ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظت قرآن کا اعلان کیوں فرمایا ،اس سے پہلے تو رات انجیل اور زبور بھی تو آسمانی کتابیں تھیں ان کی حفاظت کیوں نہیں فرمائی گئی؟
اصل بات یہ ہے کہ جب تو رات اتری تو نبوت جاری تھی اور کتابوں کا نزول ہو رہا تھا گویا کہ اصلاح اور درستگی کا سامان موجود تھا زبور نازل ہوئی تو نبوت کا اجرا جاری تھا اور کتابیں نازل ہو رہی تھیں اصلاح کا سامان موجود تھا اس لئے ان کی حفاظت کا اعلان نہیں فرمایا۔ مگر جو اس سے نقصان ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ان کتابوں کی زبان تک گم ہوگئی آپ کو معلوم ہے کچھ عرصہ پہلے ان کتابوں والوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم عنقریب اپنی زبان لوٹا رہے ہیں۔آسمانی کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں بلکہ اپنی زبان تک محفوظ نہ رکھ سکیں۔ آج اناجیل اربعہ چل رہی ہے(1) یوحنا کی انجیل(2) برنباس کی انجیل(3)لوقا کی انجیل(4)متی کی انجیل جبکہ یہ چاروں نام ان کے پوپوں کے ہیں۔موقا کی انجیل موجود، متی کی انجیل موجود، یوحنا کی انجیل موجود، برنباس کی انجیل موجود، سوال یہ ہے کہ خدا کی اتاری ہوئی انجیل کہاں ہے۔ الحمد اللہ! قرآن مجید کے خلاف سازشیں کرنے والے خود ذلیل ہوں گے۔ رسواہوں گے جبکہ قرآن پاک کی تو زبانی بھی محفوظ زیروزبر اور پیش بھی موجود 15ویں صدی جاری ہے انشاء اللہ العزیز قیامت تک مکمل طور پر اسی طرح محفوظ رہے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حبیب تو آخری رسول ہے اور قرآن آخری کتاب ہے ہم تیری بھی حفاظت کریں گے اور تیری کتاب کی بھی ارشاد الٰہی ہے:ترجعہ:”حبیب ہم آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھیں گے” چنانچہ حضورۖ نے اپنے سے پہرہ اٹھوا دیا۔ فرمایا اب میری حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے لیا ہے اب میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کفار نے ہر حربہ استعمال کیا مگر حضور کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ یہ حضورۖ کی حفاظت کا فائدہ ہوا۔ قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ترجعہ: بے ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں اور قرآن پاک کے نزول میں فرق ہے پہلی کتابیں انبیاء کرام علیھم السلام کو ایک ہی مرتبہ دے دی گئیں مگر قرآن کریم حضورۖ کو ایک ہی مرتبہ نہیں دیا گیا بلکہ منشاء خدا یہ ہے کہ اے حبیب! آپ سے محبت بھری باتیں ہوتی رہیں گی تو قرآن اترتا رہے گا گایا آپ کی مختلف ادائیں رونما ہوں گی تو قرآن اترتا رہے گا مثلاً آپ کالا کمبل اوڑھیں گے تو میں کہوں گا۔یالھاالمزمل تم سفید چادر اوڑھو گے تو میں کہوں گا یایھاالمدتر تم زندگی بسر کرو گے تو میں کہوں گا۔لعمرک سب کا ترجعہ: اے کالا کمبل اوڑھنے والے اے سفید چادر اوڑھنے والے، تیری عمر کی قسم آپ گفتگو یا وعظ فرمائیں گے تو میں کہوں گا لااقسمہ بھذا البلد مجھے اس شہر کی قسم کہ اے حبیب! تو اس شہر میں ہے۔ خداوند قدوس نے وضاحت کردی تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وجہ قسم شاید بہت اللہ ہے یا مقام ابراہیم ہے یا صفا ومروہ ہے۔ یاعرفات کا میدان ہے یاد مگر تبرک اور مقدس مقامات ہیں۔فرمایا یہ تمام مقدس مقامات اپنے اپنے مقام پر قابل عزت ہیں مگر اس شہر کی قسم کی وجہ یہ نہیں ہیں بلکہ اے حبیب کریم علیہ السلام! تو یہاں چلتا پھرتا ہے اور گلیاں تیرے قدموں کو چومتی ہیں ،اس لئے یہ گلیاں اور ان کے ذرے بھی قابل قسم ہیں حبیب تیرے محبت بھرے انداز واقوال قرآن کریم کے نزول کا باعث ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمعہ: بے شک قرآن کریم رسول کریمۖ کا قول ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ترجمعہ: بے شک آپۖ کے اخلاق قرآن کریم ہیں یعنی پھیلا دو تو تیس پارے بنتے ہیں۔ اور سمیٹ لو تو اخلاق مصطفیٰۖ بنتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here