چھوٹی سی بات!!!

0
252

بعض اوقات زندگی میں چھوٹے چھوٹے واقعات ،اعمال اور گفتگو ایسے ہوتے ہیں جو کہ ہمیں بہت زیادہ ڈسٹرب رکھتے ہیں یا کر دیتے ہیں جیسے چھوٹا سا مچھر ہمیں بار بار بے چین کر دیتا ہے، اسی طرح زندگی میں بعض اوقات چھوٹے چھوٹے واقعات ،اعمال ، نصیحتیں اور باتیں ہمارے اوپر گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں جس طرح ہم مچھر کے کاٹے کو اگنور نہیں کرتے، اسی طرح چھوٹی چھوٹی خیرخواہی نصیحتوں اور واقعات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور نہ کبھی چھوٹی نیکیوں کو نظر انداز کرنا چاہئے یہ سوچ کر کے یہ تو چھوٹا سا کام ہے میں تو بڑے بڑے کام کروں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں یہ نصیحت ہمیں بڑے جامع انداز میں ملتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کا ڈھیر بھی جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اردگرد چھوٹی چھوٹی اچھائیوں کو محسوس کرکے اس سے سیکھنا شروع کر دیں ہم خود دیکھیں گے کہ زندگی خوشگوار اور پرسکون محسوس ہونے لگے گی مثال کے طور پر فوجیوں کو لے لیں ان کو محاذ پر بھیجنے سے پہلے ان کی تمام تیاریوں کے ساتھ ان کے جوتوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ مضبوط ہو ں تاکہ ان کی دوڑ نے اور چلنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے حالانکہ ویپنز کے سامنے جوتوں کی کوئی وقت نہیں ہے لیکن جنگ کے دوران موومنٹ کو آسان بنانے کے لئے جوتا سب سے بڑے ہتھیار کا کام دیتا ہے بظاہر یہ ایک بہت چھوٹی سی چیز ہے لیکن اس کے کمفرٹیبل نہ ہونے کی وجہ سے کبھی بھاری نقصان ہو سکتا ہے اسی طرح جب ہم اپنے ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں ،سبق آموز باتوں ،اور واقعات کو نظر انداز کردیتے ہیں تو ہم سے بڑی بڑی خطائیں اور گناہ سرزد ہو جاتے ہیں جس سے ہمارا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے خوداپنا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ ضروری ہے کہ اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ ہماری زبان سے ایسے الفاظ نہ نکلیں جو خود کویا دوسروں کو نقصان دے، اس لیے کہا گیا ہے کہ مومن کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے کوشش بھی کرنا ضروری ہے ۔اور دعابھی کرنا ضروری ہے ۔یہ ایک مسلسل عمل ہے جو کرتے رہنا ضروری ہے ۔اگر ہم ایسا نہ کریں تو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہوتا ہے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ نہیں نکلتی تمہارے منہ سے کوئی بات جو تمہیں جنت کے بیچوں بیچ پہنچا دیتی ہے اور نہیں نکلتی تمہارے منہ سے کوئی بات جو تمہیں جہنم کے بیچ پہنچا دیتی جیسے گھنے جنگل کو جلانے کے لئے ایک چنگاری کافی ہوتی ہے اسی طرح نیکیوں کو جلانے کے لئے ایک لفظ یا ایک اشارہ جو کہ غلط ہو وہ کافی ہوتا ہے مومن ہمیشہ سوچ سمجھ کر بات کرتا ہے۔ 1912میں ٹائٹینک کیوں ڈوبا 50ہزار ٹن لوہے کا جہاز 1800 فٹ لمبا بنانے والے کے تکبر کی نظر ہو گیا کہ اس نے کہا تھا کہ اگر اللہ بھی چاہے تو اسے نہیں ڈبو سکتا اللہ نے اسے نشان عبرت بنا ڈالا ایک غلط جملہ کی وجہ سے آئس برگ سے ٹکرایا اور ٹوٹ گیا جبکہ ٹائٹینک کے رڈار نے وارننگ بھی دی تھی کہ جہاز آئس برگ کو ہٹ کرنے والا ہے لیکن کیپٹن نے اس چھوٹی سی بات پر توجہ نہ دی اور معمولی سمجھا لہٰذا نشان عبرت بن گیا اور پندرہ سو لوگ اس کی وجہ سے پانی میں ڈوب کر مر گئے، ایک دوسری مثال ہے کہ کسی آفس کا اونر یا منیجر اگر صفائی پسند اوراصول پسندہوتا ہے اور اپنے کام کے سلسلے میں بار بار پیون کو آواز نہیں دیتا ہے تو دوسرے ورکرز کویہ خاموش پیغام اور تربیت مل رہا ہوتا ہے کہ اپنے کام خود کرنے کی کوشش کرو ، صفائی کا خیال رکھو ، ذمہ داری سے کام کرو۔
اسی طرح جب ہم والدین اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال میں الفت ،محبت ،توجہ ،معافی درگزر ،دردمندی ،خلوص ،اختیار کرتے ہیں تو بچے اور دوسرے گھر والے خود اس کو اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پورا خاندان جہاں جہاں تک اس کی پہنچ ہوتی ہے خیر سیکھنے کا عمل شروع کر دیتا ہیاللہ ہمیں ایسے حکمتیں بکھیرنے والا بنائیاور ہماری ان کوششوں کو قبول کرے اور اس میں استقامت بھی عطا فرمائے۔ امین!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here