پچھلے19جون کے بحرہ اوقبانوس میں یونان کے ساحل پر جو کشتی ڈوبی ہے اس میں آٹھ سو کے قریب لوگ تھے جن میں400کی تعداد میں پاکستانی نوجوان تھے جو کسی وجہ سے ملک چھوڑ کر جارہے تھے۔ اتنی تعداد میں کبھی بھی انسانوں کی دوسرے ممالک میں اسمگلنگ، نہیں ہوئی ہے اسکی وجہ کیا ہے جو پہلے نہیں تھی تو ہم ایک ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حکومت کا آرمی کے ساتھ مل کرPTIکے کارکنوں کا کریک ڈائون جس نے پورے ملک میں معاشی حالات سے کہیں زیادہ خوف اور مایوسی کی فضا قائم کر رکھی ہے اور ملک کا ہر جوان جو کسی بھی ملک کے لئے ایک اثاثہ ہوتا ہے خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ ابھی تازہ تازہ خبر ہمیں جو ملی ہے وہ یہ ہے کہ20نوجوان اظہار یکجہتی کے لئے عمران خان سے ملنے گئے تھے جب وہ باہر آئے تو حکومت کے آلہ کار انکے منتظر تھے ان سب کو گرفتار کرلیا گیا۔ اور اب ان کے گھر والے30سے40لاکھ روپے دے کر انہیں جیل سے رہا کروائینگے اور وہ جب بری ہونگے تو ان کے ذہن میں ایک ہی بات ہوگی ”پاکستان سے کیسے نکلا جائے۔ حالیہ کراچی کے انتخاب میں بھی یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ زرداری اور عاصم منیر مل کر جو گھنائونہ کھیل کھیل ر ہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن کب تک ان کے لئے کیا کہیں کہ400جانوں کا سمندر برد ہونا ایک تکلیف دہ امر ہے جس کی مثال بیرونی خبررساں ایجنسیوں کے لئے انوکھی مثال ہے اور ملک کے حکمرانوں کے لئے یہ شعر کافی ہے جو کلیم عاجز نے کبھی کہا تھا۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یہ شعر تو لکھا تھا کسی حور پری کے لئے، لیکن یہاں اس کے حقدار دو افراد ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور عاصم منیر ہم کہتے چلیں کہ اب کھلم کھلا بھی تم ملک کے نوجوانوں کو غدار بنا دو انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کردو تو کسی کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ کیا کرو ہو” انسانی اسمگلنگ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پرانی ہے لیکن عموماً لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ مواقع کی تلاش میں یا جان بچانے کی وجہ سے بھاگتے تھے۔ اور ہمارے پاکستان میں یہ دونوں وجوہات ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ مُودی نے وزیراعظم بننے کے دوسرے سال میں یہاں ہزاروں انڈین شہریوں کے سامنے بڑے فخر سے کہا تھا۔”ہمارے پاس نوجوانوں کی65فیصد تعدادان جوانوں کی ہے جو35سال سے کم ہیں۔ اور50فیصد آبادی میں 25سال سے کم کے نوجوان ہیں جو ہمارا اثاثہ ہیں یہ کہتے وقت مودی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی کہ آج امریکی دانشور، صحافی اور سیاست دان کہتے ہیں۔ انڈیا کو امریکہ اتنی ضرورت نہیں جتنی امریکہ کو انڈیا کی ہے اور آب دیکھینگے آنے والے ہفتوں میں مودی پھر سے امریکہ میں اپنے سہ روزہ دورے سے واہ واہ کروائے گا۔ جہاں اسکے ہندوستانی نژاد جوان امریکہ کے ہر محکمے اور تعلیمی اداروں میں جمے بیٹھے ہیں۔ لکھنے کے لئے بہت ہے ہمارے پاس اور شرم دلانے کے لئے صرف ایک قلم جس کے ذریعے ہم ایمانداری سے تجزیہ کرسکتے ہیں کہ آج کا پاکستانی جو صاحب اقتدار ہے کیوں اچھا بننے کی نہیں سوچتا نہ ہی انسانیت اور نہ ہی مذہب میں کوئی ایسی بات ہے کہ آپ ظالم سے ڈریں اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ پاکستان میں مولویوں کے اتنے بڑے ریوڑ میں صرف ایک آواز ہم نے سنی ہے جو ناصر عباس جعفری کی ہے ایک جلسے سے اسکردو میں خطاب کرتے ہوئے کہا”غلامی کبھی قبول نہیں کرینگے حقیقی آزادی کے حصول تک عمران خان کا ساتھ دینگے ہمارا بھی ایسا ہی کہنا ہے ادھر خواجہ آصف نے خود پر ہی تنقید کردی اور مورد الزام ٹہرایا ہے۔ انسانی اسمگلر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ یونانی کوسٹ گارڈ نے ظلم کیا ڈوبتے لوگوں کو نہیں بچایا۔ روزگار اور تعلیم کے مواقع نہ ہونے سے بچے باہر جاتے ہیں ہماری معیشت ٹھیک ہوتی تو یونان جیسے واقعات نہ ہوتے درست فرمایا جناب نے ہم اضافہ کرتے ہیں ایک اور بات کا کہ اگر حکومت نے عاصم منیر کو ورغلا کرPTIکے جوانوں پر زندگی تنگ نہ کی ہوتی تو ایسا ہرگز نہ ہوتا۔ ابھی کسی کی نگاہوں میں یہ لوگ ملزم نہیں لیکن لوگوں کو مارنے کے لئے زہر دینے کی ضرورت نہیں بس ان کے پیٹ پر لات مارو۔ بیرونی اشاروں پر ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جائو لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردو۔ اور اب خون کے نشان واضح ہوتے جارہے ہیں۔یہ اسمگلنگ کا کاروبار جب سے شروع ہوا ہے جب سے دوبئی اور ابوظہبی میں تیل نکلنا شروع ہوا اس پر ایک ڈرامہ بھی بنا تھا ”دوبئی چلو” اور علی اعجاز نے کنبہ مشق اداکاری کی تھی کہ کشتی گھوم پھر کر کراچی کے ساحل پر واپس آجاتی ہے۔ دوسری بڑی اسمگلنگ جوتا حال جاری ہے وہ نیپال سے انڈیا میں ہوتی ہے جہاں لڑکیوں سے دلال لوگ شادی کرکے ہندوستان لاتے ہیں اور انہیں حسن بازار میں بٹھا دیتے ہیں۔ امریکہ نے انسانوں کی سب سے بڑی اسمگلنگ کی ہے تاریخ گواہ ہے کہ لوگوں کا کاروبار تھا وہ بڑے بڑے جہازوں میں پسماندہ افریقی ممالک میں جاکر عورتوں مردوں کو پکڑ کر لاتے اور غلام بناتے تھے۔ سائوتتھ امریکہ سے پچھلے پچاس سال سے ہم دیکھ رہے ہیں لوگ بارڈر کراس کرکے اچھی زندگی کی تلاش میں امریکہ آرہے ہیں۔
ہمارے ملک کے حالات1965کے بعد خراب ہوناشروع ہوئے تھے اور یہ ہی زمانہ تھا جب آرمی جنرل اپنا تسلط جما رہے تھے دھیرے دھیرے اور پھر پچھلے دس سالوں میں انہوں نے نہ صرف انسانی حقوق پر قبضہ کیا بلکہ انکی جانوں کے پیچھے پڑ گئے۔9مئی کے بعد اس ڈرامہ کے تحت اپنوں نے ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور سب سے بڑے لیڈر پر پابندی لگا دی۔ اور نتیجہ میں جو400افراد کشتی حادثے میں ڈوبے ہیں اکثریتPTIاور عمران کے چاہنے والوں کی ہے کہا جارہا ہے اس میںFBIملوث ہے لیکن ساتھ ہیFBIنے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کا اعلان کیا ہے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے خبر دی فی آدمی10لاکھ روپے لے کر کشتی میں سوار کرایا جاتا تھا اس میں پاکستانیوں کے علاوہ لیبیا، شام اور یونان کے سہولت کار بھی شامل ہیں۔ ابھی تک 15لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جو اس حادثے میں ملوث تھے ہمFBIسے کہینگے کہ حکومت کے کارندوں اور جنرلز سے بھی پوچھ گچھ کی جائے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ جوان کیوں بھاگے ملک چھوڑ کر اور اگر کوئی کمیشن بٹھایا جائے تو بات کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے جب تک عاصم منیر ریٹائر ہو کر لندن، پیرس یا دوبئی میں چھپے بیٹھے ہونگے اور باجوہ کی طرح گالیاں نہیں کھائینگے کسی افغانی اور اب پاکستانی سے لوگ اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ کوئی جلوس نہ نکال سکے۔ یہ کام بھی یونان کے لوگوں نے ہمدردی میں بڑا جلوس نکال کر کیا۔
٭٭٭٭٭