جس طرح پاکستان کی نوجوان آبادی ملکی حالات سے تنگ آکر مایوسی کے عالم میں غیرقانونی راستوں سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ اس کی جوابدہ موجودہ حکومت ہے ، جوکہ پاکستان کی 65فیصد نوجوان آبادی کو موافق اور سازگار ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، جہاں غریب بجلی کے بلوں ، مہنگائی، بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیوں پر مجبور ہیں تو وہیں حکمران طبقہ عیاشیوں میں مصروف عمل ہے ۔ گزشتہ ہفتے کے دوران یونان کے ساحل کے قریب تارکین وطن کی کشتی کے حادثہ میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی یاد میں یوم سوگ منایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایف آئی اے نے اعلان کیا ہے کہ انسانوں کو اسمگل کرنے والے متعدد لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بہت سے دوسرے لوگوں کی تلاش جاری ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ان سانحہ کی تحقیقات کے لئے چار رکنی کمیٹی بھی قائم کرچکے ہیں۔کمیٹیاں قائم کر کے معاملہ کی تہ تک پہنچنے والی کسی پاکستانی حکومت نے آج تک عوام کو اطلاع نہیں دی کہ جس ملک کا بھاری بھر کم نظام، پولیس یا بیوروکریسی کسی جرم کا سراغ لگانے کے قابل نہیں ہوتی، اسی نظام میں کسی تحقیقاتی کمیٹی سے کیا فرق پڑے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ایسی کوئی کمیٹی خواہ سرکاری افسروں پر مشتمل ہو یا اسے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کا نام دیا جائے، وہ کبھی بھی کسی مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوتی یا عوام کو ان تحقیقات سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ کمیٹیاں بنا کر دراصل محض عوام کو وقتی غصہ کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ فعل بجائے خود ایک قومی جرم ہے لیکن ہر حکومت اور اس کے ذمہ دار اس میں ملوث ہونے کو ‘اعزاز’ اور اپنی ذمہ داری کا ثبوت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کا دوسرا رویہ کسی سانحہ، حادثہ یا دہشت گردی کے واقعہ پر مذمتی بیانات کا ہوتا ہے۔ یہ بیانات متعلقہ وزیر سے لے کر تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی طرف سے اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان کا نفس مضمون ایک سا ہوتا ہے۔ لیکن ایسی مذمت کا کیا فائدہ جب ملک کے اعلیٰ اور طاقت ور ترین عہدوں پر فائز افراد کی مذمت کے باوجود، اس قسم کے جرائم کا قلع قمع نہ ہو سکے؟ لیکن کوئی رہنما معاملہ کے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقاتی کمیٹیاں بنانے اور مذمتی بیان جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن جرائم بھی اسی رفتار سے ہو رہے ہیں۔ یونان میں کشتی کے سانحہ ہی کو لے لیا جائے۔ شہباز شریف کی قیادت میں حکومت پاکستان نے اس واقعہ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ یہاں تک کہ یوم سوگ منا کر مرنے والوں کے اعزاز میں قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ لیکن کیا اس المناک انجام کا شکار ہونے والے پاکستانیوں کا یہ آخری گروپ تھا یا یہ واقعہ اس سے پہلے کبھی رونما نہیں ہوا تھا؟ ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہو گا۔ روزگار کی تلاش میں یورپ جانے والوں کے خواہشمند نوجوانوں کی بڑی تعداد خطرناک سفر کے مختلف مراحل میں صعوبتوں کا شکار ہو کر موت کا شکار ہوتی رہی ہے اور مستقبل قریب میں یہ سلسلہ رکنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ کیوں کہ ملکی حالات میں نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے اور وہ بہتری کی امید میں دولت ضائع کرنے کے علاوہ جان تک کو داو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ کیا کوئی ماہر سماجیات اس مایوسی اور پریشان خیالی کا جائزہ لے کر بتا سکتا ہے کہ ایسے نوجوان اور ان کے اہل خاندان کن حالات کا سامنا کرتے ہوں گے اور وہ کیسے کرب سے گزرتے ہوں گے کہ گھر کے نوجوان فرد کو خوشحالی کی موہوم سی امید پر ایک ایسے سفر پر روانہ کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جس میں زندگی سے زیادہ موت کا امکان ہوتا ہے۔ یونان کے ساحل پر گزشتہ ہفتے حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانی نوجوان اس حد تک تو ‘خوش قسمت’ ہیں کہ مرنے والوں کے اعزاز میں بیان جاری ہو رہے ہیں اور یوم سوگ بھی منایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے نے اعلان کیا ہے کہ اس حادثہ میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کو وطن واپسی پر کسی قسم کی قانونی کارروائی کا سامنا نہیں ہو گا بلکہ انہیں حادثہ کا شکار ہونے والا فرد سمجھا جائے گا۔ لیکن یہ سہولت ان دیگر سینکڑوں پاکستانیوں کو حاصل نہیں ہوتی جن کا سفر کسی نہ کسی ملک میں سرحدی کنٹرول یا حکام کی کارروائی کے سبب اچانک اختتام کو پہنچتا ہے اور انہیں پاکستان ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے بدنصیب پہلے انسانی اسمگلروں کو لاکھوں روپے دے کر وطن سے روانہ ہوتے ہیں۔ پھر پر صعوبت سفر کے بعد کسی نہ کسی ساحل یا سرحد تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو مقامی حکام کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اسمگلروں کے ایجنٹ تو رفو چکر ہو جاتے ہیں اور یہ مظلوم یا تو طویل مدت تک کیمپوں یا عارضی پناہ گاہوں میں کسی غیبی امداد کے منتظر رہتے ہیں یا انہیں پاکستان واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کو عام طور سے ‘مشکل کا مارا ہوا’ سمجھنے کی بجائے ایک نیا ‘شکار’ سمجھا جاتا ہے۔ جیل بھیجنے کی دھمکی دے کر ان لوگوں کے خاندانوں سے کثیر رقوم رشوت کے طور پر بٹوری جاتی ہیں۔ یونان کے ساحل پر ہونے والے حالیہ سانحہ کے بعد تو ایف آئی اے زندہ بچنے والوں کو عزت و احترام دینے کی بات کر رہی ہے لیکن ایسی ہی صورت حال کا شکار ہونے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں دیگر پاکستانیوں کو یہ ‘سہولت’ نہیں ملتی کیوں کہ کسی بھی حکومت نے ایسا کوئی قانون نہیں بنایا کہ معاشی بہتری کے لئے غیر قانونی طور سے ملک سے باہر جانے والے جو لوگ اگر کسی وجہ سے ڈی پورٹ ہوتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہو بلکہ ذاتی ہوس کے لئے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے انسانی اسمگلروں کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایف آئی اے اب انسانی اسمگلروں کو پکڑ رہی ہے یا انہیں پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ حکام کو یہ بتانا چاہیے کہ معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے والے ان لوگوں کی گرفت کسی بڑے سانحہ سے پہلے کیوں نہیں کی جا سکی؟ کیا وجہ ہے کہ سینکڑوں انسانی اسمگلر سادہ لوح نوجوانوں اور خاندانوں کو گمراہ کر کے ان سے کثیر رقوم وصول کرتے ہیں لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے سب ادارے خاموشی سے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
حالیہ حادثہ کا شکار ہونے والے لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بعض اسمگلروں نے انہیں باہر بھجوانے کے لئے 23 لاکھ روپے فی کس وصول کیے تھے۔ حکومت اگر ان قانون شکن افراد کو پکڑ کر انہیں چند سال یا چند ماہ کی سزا دلوا بھی دیتی ہے تو بھی ان خاندانوں کا کون پرسان حال ہو گا جن کے نوجوان بچے اس حادثہ میں جاں بحق ہو گئے یا زندہ بچ جانے کے بعد اب یونان سے ڈی پورٹ کیے جائیں گے؟کسی بھی انسان کی موت نہایت المناک وقوعہ ہوتا ہے لیکن مرنے والوں کا سوگ مناتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یونان، ترکی، مشرقی یورپ اور دیگر مقامات پر سینکڑوں پاکستانی طویل مدت سے امید و یاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض تو حکومتوں یا عالمی اداروں کے قائم کیے ہوئے پناہ گزین مراکز میں قانونی کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ گو کہ ان کے رہنے سہنے کے حالات بھی قابل تعریف نہیں ہیں لیکن وہ کم از کم محفوظ ضرور ہیں۔ البتہ بہت سے بدنصیب کسی طرح کوئی ایک سرحد عبور کرنے کی خواہش و کوشش میں دو ملکوں کی سرحدوں کے درمیان غیر قانونی طور سے دربدر ہیں اور جرائم پیشہ گروہوں کے ظلم و استحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔ یونان میں مرنے والے پاکستانیوں کو یاد کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو ان سب نوجوانوں کو وطن واپس لانے یا انہیں مناسب قانونی امداد فراہم کرنے کے لئے سفارت خانوں کو متحرک کرنا چاہیے۔
لیپ ٹاپ کے سفیر شہباز شریف کو جاننا چاہیے کہ ملک کو قومی پیداوار میں اضافے کے جس مشکل مرحلے کا سامنا ہے، اس میں لیپ ٹاپ دینے سے نوجوان معیشت کو بلندیوں کی طرف نہیں لے جا سکیں گے بلکہ ترقی میں حصہ دار بننے کے لئے انہیں ایک صحت مند ماحول، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب اور متوازن سماجی و سیاسی رویوں پر استوار معاشرہ درکار ہو گا۔ ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم کی طرف سے توہین مذہب جیسے ‘الزام’ کو دہشت گردی تسلیم کرنے والی حکومت ملک کے نوجوانوں کو یہ اسباب کیسے فراہم کر سکتی ہے؟ ان حالات میں تو نوجوان موت کے سفر پر روانہ ہوتے رہیں گے اور حکومتیں ایک کے بعد دوسرا یوم سوگ منا کر اپنا فرض ادا کرتی رہیں گی۔