ہش منی کیس میں ٹرمپ قصوروار قرار
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے وہ پہلے سابق صدر بن گئے ہیں جنھیں ایک دیوانی مقدمے میں قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔ سابق امریکی صدر کو ان کے خلاف عائد کردہ تمام 34 الزامات میں جیوری نے قصوروار قرار دیا ہے۔ٹرمپ پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک سابق پورن اسٹار سٹورمی ڈینیئلز کو ادا کی گئی (ہش منی)یعنی کسی فرد کو کوئی مخصوص راز لیک نہ کرنے کے عوض پیسے دینا،کو چھپانے کے لیے کاروباری ریکارڈ میں ہیر پھیر کی ہے۔یہ ایک ذاتی نوعیت کا کیس ہے اور اس کا مرکزی کردار ایک خاتون ہیں جن کا نام سٹورمی ڈینیئلز ہے۔ان کا دعوی ہے کہ سنہ 2006 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ سیکس کیا تھا۔2016 میں جب ٹرمپ صدر کے امیدوار تھے تو انھوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے انھیں ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر اِس شرط پر ادا کیے تھے کہ وہ ٹرمپ سے اپنے تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔ٹرمپ اس تعلق سے انکار کرتے رہے ہیں تاہم ان کی قانونی مشکل کی وجہ یہ نہیں اور نہ ہی ان کی جانب سے سٹورمی ڈینیئلز کو پیسے کی ادائیگی ہے، جو امریکہ میں قانونی طور پر جرم نہیں۔دراصل ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری دستاویزات میں پورن سٹار کو اِس رقم کی ادائیگی ریکارڈ میں بطور قانونی فیس ظاہر کیا اور نیو یارک کے پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ بزنس ریکارڈ میں غلط بیانی جرم ہے۔نیویارک، مین ہٹن کی عدالت کی 12 رکنی جیوری نے دو دن کی بحث کے بعد متفقہ فیصلہ دیا تو سابق صدر بے چینی کے ساتھ جیوری کے قصور وار ٹھہرائے جانے کے فیصلوں کو ایک ایک کر کے سنتے رہے۔اس فیصلے کے ساتھ وہ ایک مجرم کے طور پر وائٹ ہاس کے لیے انتخاب لڑنے والے کسی بھی امریکی سیاسی جماعت کے پہلے امیدوار بھی ہوں گے۔غور طلب امر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلکن امیدوار ہیں۔ جولائی 15 سے شروع ہونے والی پارٹی کانفرنس میں ریپبلکن پارٹی انھیں صدر کا انتخاب لڑنے کے لیے باضابطہ طور پر منتخب کرے گی۔ تاہم، اس سے چار روز قبل یعنی 11 جولائی کو انھیں سزا سنا دی جائے گی۔ سابق امریکی صدر کو ہر ایک الزام کے لیے ایک سال اور چار ماہ سے چار سال تک کی قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔عدالت سے نکلنے کے بعد، میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق صدر ٹرمپ نے عدالتی کارروائی کو فکسڈ ٹرائل اور ایک شرمناک عمل قرار دیا ہے۔انھوں نے دعوی کیا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے اور کہا کہ وہ آخری دم تک لڑیں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ بنا کسی سوالوں کا جواب دیے یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔توقع کی جا رہی ہے کہ سابق صدر کے وکلا اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ اپیل کے نتیجے کیس کا حتمی فیصلہ آنے میں مہینوں یا برسوں تک لگ سکتے ہیں۔فیصلہ آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مختلف شہروں کے دوروں میں مزید فعال نظر آرہے ہیں۔ ان کا بیانیہ ہے کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ خود کو ایک سیاسی قیدی قرار دیتے ہوئے انھوں نے حامیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی دوبارہ صدر بننے میں مدد کریں۔قانونی ماہرین کے مطابق جیوری کے فیصلے میں انھیں قصوروار قرار دیے جانے کے بعد بھی وہ اس وقت آزاد ہیں جب تک کہ جسٹس ہوآن مرچن سزا سنانے کا شیڈول طے نہ کر دیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ جیل جا سکتے ہیں؟قانونی ماہرین کے مطابق یہ ممکن ہے، لیکن اس کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے کہ ٹرمپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزاریں گے۔ ان کے خلاف الزامات کلاس ای جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ ریاست نیویارک میں سب سے کم درجے کے جرائم شمار ہوتے ہیں۔ ہر الزام میں زیادہ سے زیادہ چار سال کی سزا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کیس کو سننے والے جج جسٹس مرچن کے پاس کم سے کم سزا کا انتخاب کرنے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں مسٹر ٹرمپ کی عمر، ٹرمپ کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا، اور ان کے خلاف دیگر الزامات غیر متشدد قسم کے جرائم میں شامل ہوتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ جج اس کیس کی بے مثال نوعیت پر بھی غور کریں اور پھر شاید وہ سابق صدر ٹرمپ کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے سے بچنے کا انتخاب کریں۔ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا ان کا جیل جانا قابل عمل صورتحال بھی ہو گی۔ تمام سابق صدور کی طرح مسٹر ٹرمپ بھی سیکرٹ سروس کی جانب سے تاحیات حفاظت کیے جانے کے حقدار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جیل میں بھی ان کی حفاظت کے لیے کچھ ایجنٹوں کی ضرورت ہو گی۔ان سب کے باوجود ایک قیدی کے طور پر صدر کے ساتھ جیل کا نظام چلانا انتہائی مشکل ہو گا۔ انھیں محفوظ رکھنا بہت بڑا سکیورٹی رسک اور مہنگا سودا ہو گا۔اب عوامی سطح پر یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ کیا ٹرمپ اب بھی صدر کا انتخاب لڑ سکتے ہیں؟تو اس کا جواب ہے جی بالکل۔ کیونکہ امریکی آئین میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے کوئی اصول نہیں ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قصوروار پائے جانے کا فیصلہ نومبر 2024 کے صدارتی انتخابات کو متاثر کر سکتا ہے۔ رواں سال کے شروع میں بلومبرگ اور مارننگ کنسلٹ کے ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ اہم سوئنگ ریاستوں میں 53 فیصد ووٹروں نے سزا پانے کی صورت میں رپبلکن کو ووٹ دینے سے انکار کیا ہے۔ اسی ماہ ایک دوسرے سروے میں دیکھا گیا ہے کہ اس صورت میں مسٹر ٹرمپ کے ووٹروں میں سے چھ فیصد کا انھیں ووٹ دینے کا امکان کم ہو جائے گا۔ اور اس طرح کے سخت مقابلے میں یہ بہت نتیجہ خیز ہوگا۔مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ بطور صدر اپنی سزا معاف کر سکیں گے؟امریکی صدور ان لوگوں کے لیے معافی نامہ جاری کر سکتے ہیں جنھوں نے وفاقی سطح کے جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔ نیویارک میں ہش منی کیس ایک ریاستی معاملہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسٹر ٹرمپ دوبارہ صدر بنتے ہیں تو اس کیس میں اپنی سزا معافی ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہو گی۔ مسٹر ٹرمپ کے دو وفاقی معاملات کے معاملے میں معافی دینے کے اختیارات واضح نہیں ہیں۔