آٹھویں قسط
ڈاکٹر رزق مرسی ابوالعباس اپنے دوسرے مقالے ”وفقہ فی ظلال لبساتین الغفران” میں جہاں سیدی اعلیٰ حضرت کے بے مثال کمالات اور کار ہائے نمایاں کے معترف ہو کر صفحات کے صفحات آپ کی پذیرائی میں تحریر کئے ہیں وہیں عربی زبان وادب پر آپ کو جوید طولیٰ حاصل تھا اس پر اظہار حیرت کرتے ہوئے یہ کہنے یہ مجبور ہوگئے۔ ”واظن لو ان الشاعر امامی وسالتہ عن سبب ھٰذا الفیض المدرار بلغتنا العربیة لقال انھالغة اَنناولسان حبیبنا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وفصحیٰ اھل الجنة” یعنی میرے دل میں یہ خیال گذرتا ہے کہ اگر اس شاعر سے مجھے شرف لقا حاصل ہوتا تو میں اس سے عربی زبان وادب کے لامحدود فیوض وبرکات کے اسرار سے متعلق پوچھتا تو وہ یہی جواب دیتا کہ یہ ہمارے قرآن، ہمارے حبیبۖ اور اہل جنت کی زبان ہے۔ بعض معاندین یہ کہہ ڈالتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کو علم حدیث میں کوئی کمال حاصل نہیں تھا لہٰذا ان کے لئے محدث بریلوی کا اطلاق بے معنی وبے جا ہے۔ ایسے کج فہموں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ کوئی اس وقت تک فقیہ نہیں بن سکتا جب تک کہ اسے فن حدیث میں مہارت نہ ہو۔ سیدی اعلیٰ حضرت قدوس سرہَ ایک بے بدل فقیہ تھے تو ماننا پڑے گا کہ آپ بے مثال محدث بھی تھے۔ ہمارے اس دعوے کے پشت پناہ تقریباً سرہ مختلف کتب احادیث پر آپ کی گراں قدر معلومات افزا حواشی ہیں۔ ان کتب احادیث میں صحاح ستہ کے علاوہ شرح جامع صغیر، سنن دارمی، شرح معافی الآثار، عمدة القاری شرح بخاری، فتح الباری شرح بخاری، ارشاد الساری شرح بخاری، کنزالعمال، مرقاة شرح مشکوٰة، فیض القدیر شرح جامع صغیر، موضوعات الکبیر، التعقبات فی الموضوعات بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں مدار ج طبقات الحدیث، الافادات الرضویہ، الھاد الکاف فی حکم الضعاف، النھی الاکیدعن الصلوٰة وراء عدی التقلید” حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلوٰتین، الفضل الموھبی فی معنیٰ اذا صح الحدیث فھو مذھبی، النجوم والثواقب فی تخریج احادث الکواکب جیسے معرکتہ آلاراء رسائل آپ کے کمال فن حدیث پر روشن دلیلیں ہیں۔ مزید برآں اسماء رجال کی شہرہ آفاق کتب تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، تذکرة الحفاظ پر آنکھوں کو خیرہ کرنے والے حواشی بھی آپ کی لیاقت روایت و درایت کے ناقابل انکار ثبوت ہیں۔
٭٭٭٭٭٭