بیت المقدس اور مسلم دنیا!!!

0
681
رمضان رانا
رمضان رانا

بانی پاکستانی قائداعظم محمد علی جناح نے آغاز پاکستان میں اپنی زندگی میں بھی فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی تاکہ پاکستان کا ہر حکمران اس ناجائز ریاست کو کبھی تسلیم نہ کرے حالانکہ فلسطین پر قبضہ کرانے میں ہندوستان کی مسلم فوج کا بہت بڑا کردار تھا جس نے انگریز آقائوں کے حکم پر فلسطین کی حکمران سلطنت عثمانیہ کے خلاف لشکر کشی کرکے فلسطین انگریزوں کے حوالے کیا تھاجنہوں نے بھاری بھر کم دولت پر فلسطین کو صہیونی طاقتوں کے ہاتھوں بھیج دیا جس کی بنیاد پر اسرائیل کا قیام لایا گیاجس کو پوری مسلم اشتراکی اور تیسری دنیا نے تسلیم کیا تھا جس میں مسلم دنیا کے علاوہ روس، چین، بھارت اور دوسرے ممالک بھی شامل تھے۔آج فلسطین دنیا کی واحد صہیونی کا سونی بن کر رہ گئی ہے۔جس کے عوام پر مسلسل قتل وغارت گری مسلط رہتی ہے۔جیسا کہ پچھلے جمعتہ الوداع کے موقع پر اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر حملہ کردیا۔جس میں اب تک سینکڑوں عوام بچے، بوڑھے اور عورتیں شہید اور زخمی ہوچکی ہیں۔جس پر دنیا خاموش ہے خاص طور پر عرب ممالک جن کا فلسطین عوام کے ساتھ نسلی لسانی اور مذہبی رشتہ قائم ہے۔تاہم اے ارض فلسطین ہم سب بڑے دشمن ہیں جو اشیائے اکرام کی جائے آرام گاہ کی حفاظت نہ کر پائے۔قبلہ اول بیت المقدس کو نہ بچایا جائے۔سفر معراج کی قیام گاہ کا دفاع نہ کر پائے۔وہ بیعت المقدس جو تین آسمای مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی مقدس سرزمین کہلاتی ہے جس کے یہودیوں کو دو ہزار پہلے غلام بنا کر یورپ لے جایا گیاجس کے یہودیوں کے حقوق مکمل طور پامال تھے۔جن پر یروشلم میں کسی قسم کی زمین اور جائیداد خریدنے کی پابندی تھی۔جن کو مسلم دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے دور خلافت میں ختم کرکے تمام حقوق سے نوازہ گیا۔بعدازاں صلاح الدین ایوبی نے تین سو سالہ صلیبی جنگوں کے خاتمے کے بعد اہل یروشلم کے عوام کو آزاد کرایا جن پر صلیبوں کا صدیوں پرانا ظلم وستم جاری تھا۔یا پھر سلطنت عثمانیہ کے دور خلافت میں یہودیوں کو مکمل آزادی اور برابر کے حقوق دیئے گئے حتکہ یہودی خلافت عثمانیہ میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔مگر جنگ عظیم اول کے بعد خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد فلسطین پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔جس نے فلسطین کو جرمن ہولوکوسٹ کے کاروباری اور بے پاری صہیونی طاقت کے ہاتھوں بیچ دیا جو آج تک فلسطین پر قابض ہے۔جس نے آہستہ آہستہ دوسرے عرب علاقوں پر قبضہ کیا یا پھر مزید توسیع پسندی پر عمل درآمد کر رہا ہے۔بہرکیف قبلہ اول پر صہونیت کے قبضے پر پوری مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔جن کے ایسے وجود خطرے میں پڑے ہوئے اس کسی مسلم دنیا میں بادشاہت حکومت آمریت یزیدیت مسلط ہے۔جو اپنی اپنی عوام کے ہر جبروتشدد کرتے نظر آتے ہیں۔جنہوں نے ایک طرف فلسطین کا سودا کیا تو دوسری طرف کشمیر کے تنازعے سے پیچھے ہٹ گئے۔جس کی وجہ سے فلسطین اور کشمیر دونوں کی سرزمین خون میں لت پت نظر آرہی ہے۔جبکہ ایسے موقع پر عرب دنیا صہونیت کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہوئی نظر آرہی ہے۔جن کے دبئی میں کاروبار قائم ہوچکے ہیں۔جس سے اسرائیل آہستہ آہستہ اپنی مقدس زمین کے نام پر عرب ممالک پر توسیع پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔جس کو صہونیت اپنا قدیم علاقہ تصور کرتے ہیںکہ یہ علاقے ان سے چھپنے گئے تھے جبکہ مسلم حکمرانوں نے خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ تک یہودیوں کو برابر کے حقوق دیئے مگر ناشکری قوم مسلمانوں کی مخالف ہوچکی ہے جس کا بدلہ فلسطینی عوام سے لے رہے ہیں۔جس میں فلسطینی مسلمان عیسائی اور یہودی بھی شامل ہیںجو یہاں صدیوں سے آباد ہیں جن کے آپس میں خونی رشتے موجود ہیں مگر یورپین صہیونیت نے فلسطینی عوام کو بلاتفریق غلام بنا لیا ہے۔جو آئے دن اپنے جدید جنگی جہازوں اور میزائیلوں سے حملے کرتے نظر آتے ہیںجس سے ہزاروں فلسطینی بوڑھے بچے اور خواتین مارے جا چکے ہیں۔بہرحال فلسطین پوری دنیا جو آزادی جمہوریت اور انسانیت پر ایمان رکھتی ہے۔اس کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔کہ آج اکیسویں صدی میں دنیا کی واحد سرزمین فلسطین مقبوضہ ہے جس پر دنیا بھر کی صہیونیت قابض ہے۔جن کا نظریہ حیات یہ زمین قدیم یہودیوں کی تھی۔ہم یورپین نسلیں اس کے مالک ہیں لہذا مقامی تمام آبادی کو ریڈ انڈین کی طرح مار دیا جائے جس طرح وہ یورپین حملہ آوروں نے ریڈ انڈین کو مار کر اپنے ممالک قائم تھے۔جو آج ہمیں امریکہ، کینیڈا، برازیل، ارجنٹائن، میکسیکو اور دوسرے ممالک نظر آرہے ہیں۔اسی طرح فلسطین پر صہیونیوں نے قبضہ کیا تھا۔جن کا نظریہ نہایت احمقانہ ہے۔کہ یہ زمین ان کے ہزاروں سالوں پہلے باپ دادا کی تھی۔جس کو اگر تسلیم کیا جائے تو پھر تمام شمالی،جنوبی اور وسطی امریکہ کے آباد کار واپس جاکر اپنے قدیم آبائی ملکوں پر قبضے کرلیں۔جو یورپ، ایشیا، افریقہ سے آکر امریکہ میں آباد ہوئے تھے یہ جانتے ہوئے کہ اگر یہ آباد کار واپس اپنے قدیم ممالک کی طرف جانا چاہیں تو اس شاید وہاں کا ویزہ تک نہ مل پائے گا۔قصہ مختصر قبلہ اول کا درجہ مسلمانوں کے قبلہ دوم خانہ کعبہ کے برابر ہے۔جس کی طرف مسلمان آغاز اسلام میں قبلہ رخ کرکے نمازیں پڑھا کرتے تھے یہاں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ قائم ہیں۔یہاں سے ہمارے رسول مقبولۖ نے تمام انبیائے اکرام کی امامت کی تھی۔یہاں سے حضور پاکۖ معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے۔آج وہ مقامات مقدسہ پر ہوئی اپنے جدید ہتھیاروں سے حملہ آور ہوچکے ہیں۔جو فلسطین کے ڈیڑھ کروڑ فلسطینوں کو مار کر گر پڑا اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں۔جن کی مدد مسلم حکمران بلواسطہ اور بلاوسطہ کر رہے ہیں۔جو فلسطینیوں کے ساتھ اجتماعی غداری کے مترادف ہے۔کہ ایک طرف فلسطینی عوام کا قتل وغارت گری جاری ہے۔دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ عرب بادشاہ اور خلیفہ تعلقات کی بحالی کی آڑ میں پینگیں اڑا رہے ہیں۔لعنت ہو ایسے حکمرانوں پر۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here