تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئیے۔۔۔۔
قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے پاکستان بننے کے فورا بعد مسلم لیگی قیادت کے بارے کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ یہ وہی کھوٹے سکے تھے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کمپئن چلائی اور ایک ڈکٹیٹر سے جا ملے۔ مسلم لیگ ہمیشہ سے اقتدار کی ہوس کا شکار رہی ہیں۔جب یہ اقتدار سے باہر ہوں تو بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی ایاز صادق کیطرف سے قومی سلامتی پر من گھڑت اور گھٹیا بہتان۔ کبھی میاں جاوید کیطرف سے بیہودگی کا مظاہرہ۔ کبھی مسلم لیگی رہنماء کا کہنا کہ میں اپنے گھر میں عمران خان کی جگہ مودی کی تصویر لگانا پسند کرونگا۔میں حیران ہوں کہ ایسے اْجڈ، جاہل اور نظریہ پاکستان کے دشمنوں کوعوام منتحب کیسے کرلیتے ہیں۔ ؟
ان پارٹی رہنماؤں کی سطحی اور گھٹیا ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ اپنے پارٹی رہنماؤں کی خوشنودی کیلئے اپنی ماں یعنی وطن کو گالی دینا کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ن لیگی رہنما اسمعیٰل گجر نے بھارت سے مدد کا کہا۔ اقتدار کی ہوس میں پاگل نواز شریف اْن لوگوں سے ملاقاتیں کر ر ہے ہیں جو پاکستان کو گالی دیتے ہیں۔ جو ہمارے پیارے وطن کو چکلے خانہ کہتے ہیں۔ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن کوئی لیگی کارکن کھڑا ہو کر ان سے پوچھتا نہیں کہ آپ یہ ایجنڈا کہا سے لائے۔ کس کے اشارے پر پاکستان دشمنوں سے پینگیں بڑھا ر ہے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں کو بغیر ویزہ نواسی کی شادی پر مدعو کرنا۔پارٹی لیڈرز کیطرف سے افواج پاکستان کو گالیاں دینا، اب کیا ن لیگ کے پاس سیاست کیلئے یہی بچا ہے۔
کشمیر الیکشن بالآخر اختتام پذیر ہوئے۔ دوستیاں دشمنیوں میں اور محبتیں رنجشوں کی نظر ہوئیں۔ مودی کے یار ہوں یا یہودی کے یار۔ اللہ بارک مملکت پاکستان کی خفاظت فرمائے۔ کشمیریوں کی قربانیوں کا اْہیں ثمر نصیب فرمائے۔ آمین۔ان پارٹیوں نے الیکشن کو زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھنا، کردار کشی کرنا، عزتوں کو اْچھالنا دن بدن ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ نواز شریف نے بینظیر کو پیلی ٹیکسی قرار دیکر سیاسی میدان میں گندگی کا آغاز کیا،الطاف حسین نے سیاست میں دہشت گردی کو رواج دیا۔
منظور پشتین ،محسن داؤڑ جیسے گماشتے۔جن کی سیاست کا محور پاکستان کو گالی دینا ہے۔ کبھی پی پی کے لیڈر پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں کبھی زرداری اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگاتے ہیں۔یہ سیاست کی اخلاقیات ہیں۔جتنا بڑا غنڈہ اتنا ہی بڑا لیڈر۔
جتنا بڑا بھونکا اتنا ہی لیڈرشپ کے قریب۔مریم کے پاپا جانی جنہیں اسی سال کی عمر میں بھی سیاست کا بہت شوق ہے ،کبھی مودی کو گھر بلاتے ہیں کبھی الطاف حسین سے ملاقات کرتے ہیں اور کبھی پاکستان کو رنڈی خانہ کہنے والے افغان لیڈر سے ملتے ہیں۔سیاست میں اخلاق نام کی چیز ناپید ہو چکی ہے۔ہر کوئی ایک سے بڑھ کر ایک تخفہ ہے۔ قوم نے ان جاہلوں کو سر پر بٹھا رکھا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں عمران خان نے سیاسی کلچر کو یکسر تبدیل کردیا۔دھرنا میں اْنکی غیر اخلاقی، غیر شائستہ،گفتگو اور بدتہذیبیاں تو کل کی ہی بات ہے۔ کشمیر جیسے سنجیدہ اور حساس ایشو پر کسی بھی اْمیدوار یا لیڈر جو بولنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اور نہ ہی ان جماعتوں کا نصب العین ہے۔ یہ سبھی پارٹیاں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر چل رہی ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں امدادی پیکج کا اعلان۔ کشمیر کی وزارت انتہائی غیرسنجیدہ ، ہر وقت نشہ میں دھت رھتا ہے۔ غنڈاپور صاحب کو نہ بولنے کی تمیز ہے نہ ہی بات کاسلیقہ ، کیا یہ کشمیریوں کی قربانیوں کے ساتھ مذاق نہیں ہے۔سیاسی کلچر کا یہ عالم ہے کہ آئیندہ نامزد وزیراعظم برسٹر سلطان محمود ہر وقت نشہ میں دھت رھتے ہیں۔ یہ لوگ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں اور شہادتوں ،کا کیا ادراک۔ آپ ٹی وی آن کریں ٹاک شوز میں آپکو پی ٹی آئی کے بدتہذیب گروپ، اور ن لیگ کے بد تمیز گروپ سے الجھا رھتا ہے۔ھمارے لیڈر پاکستان سے نکلتے ہی وطن دشمن بیانات دینا شروع کردیتے ہیں۔ غیروں کی دلالی میں ہمیں اپنے وطن (ماں) کو گالی نہیں دینی چاہئے۔ پاکستان معرض وجود میں آنے کے فورا بعد ہی ،غیروں کی دلالی میں پیش پیش غدار ملک سے بے وفائی کرتے ر ہے۔اپنی غیرت کے عوض ملک سے غداری شروع دن سے ہی رہی ۔ سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پاؤں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔ اس کی آوازیں سن کر بہت سے چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔ سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟ سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے:
“جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے۔” اعتماد ایک چھوٹا سا لفظ ہے۔ جسے پڑھنے میں سیکنڈ۔ سوچنے میں منٹ۔سمجھنے میں دن۔مگر ثابت کرنے میں ساری زندگی لگ جاتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال ، کردار ،اعمال اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ان میں سے کسی کی بھی کمی ہو گی تو بلندی پر پہنچے میں کانٹے چننے پڑتے ہیں۔لیکن ہماری سیاست کا مزاج اور اخلاقی ماحول ، گالی گلوچ، لوٹ مار ، وطن عزیر کے بیسک نظریہ کے خلاف بولنا وطیرہ بن چکا ہے۔ ملکی سلامتی کے لئے آئین میں درج نظریہ پاکستان سے متعلق سزا و جزا کے قانون پر عمل درآمد ہونا چاہئے تاکہ آئے دن کوئی اْٹھ کر ملک کے خلاف بکواس نہ کر سکے۔ ملک دشمنوں کے خلاف ملاقاتوں پر باز پرس ہونی چاہئے۔