تقدیر امم، صحیح فیصلہ و اتحاد!!!

0
58
جاوید رانا

وطن عزیز پاکستان کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے کہ ثبات اور قرار کسی بھی شعبہ میں نظر نہیں آتا، پل میں تولا، پَل میں رتّی کا سلسلہ ہر جانب نظر آتا ہے۔ سیاست، ریاست، حکومت و معیشت کے کھیل میں اُتار چڑھائو تو اب معمول بن چکا ہے، کھیل کا شعبہ بھی خصوصاً کرکٹ بھی اب اسی زمرے میں نظر آتا ہے، پاکستان کی میزبانی میں ایشیاء کپ کا انعقاد عوام کے جوش و جذبے کی ان حدود کو پہنچ چکا تھا جہاں وہ اپنی ذاتی، معاشی، سیاسی، تکالیف و مشکلات کو بھول کر صرف اس دُھن میں تھے کہ روایتی حریف بھارت کو ہرا کر فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑھیں، آئی سی سی کے مالدار ترین اور زور آور رکن BCCI کے جے شاہ کی شاطرانہ منصوبہ بندی اور اے سی سی کے باجگزروں کی جی حضوری کے باعث جو کچھ ہوا وہ تاریخ بن گیا ہے کہ بھارت کے پاکستان میں نہ کھیلنے کی ہٹ دھرمی کے سبب میچز خصوصی طور سے فائنل مرحلے اور پاک بھارت میچ سری لنکا میں کھیلائے گئے اس تمام تر سازش اور سری لنکا میں قیامت خیز بارشوں کے خطرات کے باوجود ساری قوم اور ماہرین اس توقع پر تھے کہ اپنے پیس اٹیک کے سبب پاکستان ایشین چیمپئن کا تاج سر پر سجائے گا لیکن 10 اور 11 ستمبر کو شدید ترین بارش میں پاکستانی شکست مقدر بنی ۔ ”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ” ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن ہمت نہ ہارنا چاہئے۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا اس شکست کی وجہ پاکستان کیخلاف جے شاہ کی سازش اور بھارتی ہٹ دھرمی ہی ہے یا اس میں ہمارے اپنوں کی غلط منصوبہ سازی اور فیصلوں کا بھی حصہ ہے۔ ان سارے معاملات کو جو ایشیاء کپ کے انعقاد سے پہلے ہوئے اور جن کی وجہ سے گزشتہ میچ تک کی نوبت آئی ہم نظر انداز کرتے ہوئے صرف حالیہ میچ پر نظر ڈالیں تو کیا محکمۂ موسمیات کی واضح پیشگوئیوں کے باوجود ٹورنگ کمیٹی کو میچ کے انعقاد کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا اور دوسرے دن تک جاری رکھنا چاہیے تھا جبکہ یہ بات یقینی تھی کہ بارش کا جل تھل جاری و ساری رہنا تھا۔ پھر کرکٹ ماہرین کے متفقہ مشورے کے مطابق ٹاس جیتنے پر کپتان کو بیٹنگ کے فیصلے کے برعکس فیلڈنگ کا فیصلہ درست تھا؟ مسلسل بارش کے سبب پڑنے والے گڑھوں اور گیلی فیلڈ کے باعث دنیا کے بہترین پیس اسکواڈ اور اسپنرز کی بولنگ نہ چل سکی بالرز کی پنڈلیاں اکڑ کر رہ گئیں، نتیجتاً بھارتی کھلاڑیوں نے 356 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ مرے پر سو دُرّے کے مصداق دوسرے روز کم وقت میں زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کی تگ و دو میں ٹاپ آرڈر فیل ہو گیا۔ فخر زمان تو پورے ٹورنامنٹ میں ہی فیل رہا، بہترین بیٹسمین بھی تو چل میں آیا کی تصویر تھے۔ بار بار کھیل رکنے کا محرک مسلسل وکٹیں گرنے کا سبب تھا اور آخر کار 228 رنز کی بدترین ہزیمت کیساتھ پاکستان کے غلط منصوبوں اور فیصلوں، اس کی خوش فہمیوں میں رہنے کی قلع بھی کُھل گئی ہے۔ بات کرکٹ تک ہی محدود نہیں غلط فیصلوں، منصوبوں اور خوش فہمیوں پر تو ملک کا ہرشعبہ، نتائج و اثرات کا سوچے بغیر عمل پیرا نظر آتا ہے۔ فرد سے اداروں، حکمرانوں اور فیصلہ سازوں تک سب ہی حقائق سے آنکھیں موند کر اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ دوست، دشمن کی شناخت کئے بغیر (قومی و بین الاقوامی) فیصلے کئے جاتے ہیں، دعوے کئے جاتے ہیں اور جب حقائق و نتائج سامنے آتے ہیں تو مایوسی اور شرمندگی کے سواء کچھ نہیں ملتا۔ تازہ ترین مثال G-20 کی بھارت میں کانفرنس ہے جس میں اور بہت سے فیصلوں کیساتھ سعودیہ، یو اے ای، یورپی یونین، یورپی ممالک اور امریکہ تک کیلئے انڈیا مڈل ایسٹ کاریڈور ٹریڈ معاہدہ محض اس لئے لایا گیا ہے کہ چین پاکستان کا ریڈرور بیلٹ اینڈ روڈ (CPEC) کو متاثر کیا جا سکے اور چین و پاکستان کی کامیابی و ترقی کو زک پہنچائی جائے۔ا مریکہ و بھارت کے چین و پاکستان دشمنی کے اس ایجنڈے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اشتراک ہمارے ذمہ داروں اور فیصلہ سازوں کی برادر ممالک سے وفاداری اور سرمایہ کاری و اشتراک کی خوش فہمی کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ 25 بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ اور مختلف منصوبوں کے تعاون کے اعلان پر بغلیں بجانے والے ہمارے ارباب اقتدار کو یہ سوچنا چاہیئے کہ گلوبل ولیج میں تعلقات، تعاون اور سرمایہ کاری صرف اپنے فوائد کیلئے کئے جاتے ہیں نیز اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ متعلقہ مملکت معاشی، سیاسی ریاستی و عوامی حوالوں سے مستحکم تجارت و انوسٹمنٹ کیلئے موافق ہے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دنیا کی ساتویں بڑی عسکری و نیوکلیائی قوت ہونے، بہترین افرادی قوت، قدرتی، زرعی وسائل کی فراوانی کے باوجود ایک ایسی مملکت ہیں جہاں مفاد پرستی، ذاتی اغراض اور غیر نمائندگی کے بھنور میں کوئی بھی دور مستحکم اور نمائندہ حکومت کا نہیں رہا، اس کی وجہ کیا ہے، اس کی حقیقت سے قوم ہی نہیں ساری دنیا واقف ہے۔ موجودہ حالات بھی اسی حقیقت کا آئینہ ہے۔ ریاست، سیاست، آئین، قانون اور جمہوری عمل گھر کی لونڈی بنے ہوئے ہیں۔ انتخابات کی نوید سنائی جا رہی ہے لیکن کب ہونگے، کچھ پتہ نہیں۔ نگراں وزیراعظم جن منصوبوں کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی تائید سے اعلان و اقدام کر رہے ہیں وہ چھ ماہ، سال یا دو سال میں مکمل ہونے والے ہرگز نہیں۔ بجلی چوروں، اسمگلروں، کارٹل اور مافیا کا قلع قمع کرنا کچھ آسان نہیں جبکہ ان میں سابق وزرائ، حکمران طبقات، سرکاری افسران و عمال، کاروباری ٹائیکون حتیٰ کہ لاء اینڈ آرڈر کے ذمہ دار(حالیہ خبروں کے مطابق) ملوث ہیں۔ ہم حالیہ اعلانات و اقدامات کیخلاف نہیں لیکن کیا عوامی اعتماد، عوامی سیاسی نمائندوں، کاروباری، سرکاری عملداروں اور سب سے بڑھ کر صحیح منتخب نمائندہ حکومت کے بغیر یہ سب ممکن ہے۔ اگر سوچ یہ نہیں ہے تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ مقصد ہمارے اس خدشے کی تکمیل کیلئے ہے جس کا اظہار ہم نے پچھلے کالم میں بیرونی طاقتوں کی خواہش کے حوالے سے پاکستان کو چھوٹی ریاستوں میں منقسم کنفیڈریشن بنانے کے حوالے سے کیا تھا۔ کسی بھی ملک و قوم کا وقار تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتحاد و استحکام میں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here