مہنگائی اور حکومت…!!!

0
160

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا نتیجہ ہے جو ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے،سچ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا نہ ہی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، پھر اشیائے ضروریہ کے نرخ عام آدمی کی رسائی سے باہر ہونے کا اس کے سوا کیا مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر پائے ۔آمدن میں کمی ، بیروزگاری میں اضافے اور حکومت کی انتظامی گرفت کمزور ہونے سے عوام کے دکھ تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں جنہیں کم کرنے کا لائحہ عمل مفقود ہے۔ ملک میں مہنگائی کی نئی لہر حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو قابو میں لانے کی کوششوں کی ناکامی بن کر سامنے آ رہی ہے۔ملک بھر میں آٹے کا بحران موجود ہے ۔ایک ایسا ملک جو زرعی پیداوار میں خود کفیل ہے وہاں لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں لیکن آٹا دستیاب نہیں ۔ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر کے آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت میں تقریبا تین فیصد (2.81 فیصد) تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ، فروری کے وسط تک آتے آتے یہ اضافہ کئی مقامات پر کئی گنا ہو چکا ہے ۔موسم سرما کے دوران کئی علاقوں میں عوام کو درپیش صورتحال یہ رہی کہ اگر گھر کی گیس کا پریشر کم ہو تو پھر تندور کا رخ کرنا پڑتا ہے جبکہ تندور سے ایک روٹی 25 روپے سے کم کی نہیں مل رہی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت بھی یکساں نہیں ہے۔ اگر مارکیٹ ریٹ کی بات کی جائے تو صوبہ خیبرپختونخوا میں آٹے کی قیمت دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اور یہاں 20 کلو آٹے کا تھیلا 3300 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی سرکاری قیمت اگرچہ لگ بھگ مارکیٹ ریٹ سے نصف ہے تاہم عوام کی طویل قطاروں اور سرکاری آٹے کی محدود مقدار میں دستیابی کے باعث اس کا حصول نامکن ہے۔پنجاب میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2450 سے 2500 روپے کے درمیان ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں اس کی قیمت 2400 تک ہے۔جنوری میں بلوچستان نے ہنگامی مدد کی اپیل کی جس کے بعد پاک فوج نے وہاں آٹے کی سپلائی بحال کی ۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2500 سے 2600 کے درمیان بتایا جاتا ہے لیکن اس قیمت پر دستیابی ممکن نہیں رہی۔ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گذشتہ دو برسوں سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطا 124 کلو گرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔زمیں کی تیاری، ضرورت کے مطابق فصلوں کی کاشت اور اناج کو محفوظ رکھنے کا نظام فرسودہ ہی نہیں کلی طور پر منہدم ہو چکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ نجی کاروبار کرنے والے حکومت کو ہاتھوں پر نچا رہے ہیں۔ پاکستان سوئی دھاگے سے لے کر لہسن، پیاز اور تیل تک درآمد کرتا ہے، جو درآمدی اشیا ہیں اگلے چند ہفتوں میںان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔موٹر سائیکل، گاڑیاں، خوردنی تیل، ایندھن، الیکٹرونکس ڈیوائسز سمیت ہر چیز کی قیمت بڑھ سکتی ہے۔معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد مہنگائی کی شرح میں 10 سے 12 فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔مہنگائی کی شرح میں اضافہ اپنی جگہ لیکن موجودہ دور حکومت میں اشیا کی ترسیل کا جو نظام متاثر ہوا ہے وہ بحال ہوناضروری ہے ۔ اشیا کی قلت کا مسئلہ بھی مہنگائی کی وجہ بن رہا ہے۔ناقص معاشی و مالیاتی پالیسیوں نے عوامی بہبود کے منصوبے شروع نہیں ہونے دیئے ۔حکومتوں کی اپنی دلچسپی بھی پالیسیوں کی بجائے سیاسی خاندانوں کا اقتدار مستحکم کرنے میں رہی ہے۔ عام آدمی تباہ ہو چکا ہے،اسے کم از کم اجرت کا جو کھلونا پچیس ہزار کی شکل میں تھمایا گیا اس پر پوری طرح عمل نہ ہو سکا ،پچیس ہزار ماہانہ مل بھی جائیں تو بھلا اس میں کتنے روز کا خرچ چل پائے گا۔ مہنگائی کی نئی لہر آنے کے بعد خطِ غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا جس کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے کورونا وبا کے دوران نچلے طبقات کے لئے ٹارگٹڈ سبسڈیز کا انتطام کیا تھا ،اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک نے اس کی ستائش کی۔ اس وقت پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے ۔ معیشت کو پاوں پر کھڑا کرنے کا دعوی لیکر آنے والی پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں ۔عام آدمی کو حکومت سے کسی نوع کی مدد ملنے کی امید دم توڑ رہی ہے ۔پیشتر اس کے کہ حالات کسی بھیانک رخ پر مڑ جائیں آٹا، گھی، مرغی کے گوشت، دالوں اور سبزیوں کی قیمتیں بڑھنے سے روکی جائیں ۔ ایسا نہ کیا جا سکا تو مہنگائی سیاسی نقصان کی صورت میں حکومتی اتحاد سے بدلا لے سکتی ہے۔اس سے نمٹنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ۔حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ڈیل میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے بعد پیش رفت ہوگی لیکن بجلی ، گیس ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سمیت بعض شرائط اور بھی ہیں جنہیں حکومت کو پورا کرنا ہوگا۔ ٹیکسز کو سرپلس کرنا ہوگا اور تمام اخراجات ٹیکس محصولات سے پورے کرنا ہوں گے۔حکومت کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے اور مزید تاخیر کی اب گنجائش نہیں رہی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here