آئین شکنی کے مجرم !!!

0
103
رمضان رانا
رمضان رانا

آئین پاکستان کو منسوخ اور معطل کرنے والے مجرموں میں جنرلوں کے ساتھ ساتھ ججوں کا نام آتا ہے۔ جنہوں نے آئین شکنوں کو لیگل لائز کیا تھا جنہوں نے آئین کی بجائے جنرلوں کے بنائے ہوئے ضابطوں ایف ایل او اور پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر آئین شکنی کی ہے یا پھر ججوں نے جنرلوں کی آئین شکنی کو جائز قرار دیا ہے جس کی وجہ سے جج صاحبان بھی آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں جب بھی جنرلوں نے آئین شکنی کرتے ہوئے آئین منسوخ یا معطل کیا ہے تو جنرلوں نے منتخب آئینی اداروں پارلیمنٹ اور حکومت کو برطرف کردیا لیکن عدلیہ نہ جانے کونسے قانون کے تحت باقی رہی ہے حالانکہ عدلیہ بھی آئینی ادارہ ہے جو آئین کی منسوخی یا معطلی کے بعد اسی طرح ختم ہوجاتی ہے۔ جس طرح پارلیمنٹ اور حکومت کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ مزید برآں آئین شکنی میں آئین کی منسوخی یا معطلی میں فیڈریشن یا یونین بھی ٹوٹ جاتی ہے جو آئین کے معاہدے کے تحت وجود میں آتی ہے کہ یہ فیڈریشن فلاں فلاں صوبوں اور اکائیوں پر مشتمل ہے جو آئینی معاہدے کے تحت فیڈریشن کا حصہ ہیں ،جب آئین باقی نہیں رہے گا تو فیڈریشن کیسے باقی رہے گی مگر پاکستان آئین کی غیر موجودگی میں عدلیہ اور فیڈریشن نہ جانے کونسے قانون کے تحت باقی رہی ہیں اگر یہ ہی آئین پر لشکر کشی اور مہم جوئی کسی مہذب اور جمہوری ملک میں ہوئی تو امریکہ اور بھارت جیسی ریاست ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے جس کو صرف اور صرف آئین نے متحد رکھا ہوا ہے، لہٰذا اگر جنرلوں پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری بنایا جائے تو ججوں کو بھی شریک جرم میں سزا دی جائے جس طرح دنیا بھر کے ملکوں ترکی، ارجنٹائن، چلی اور برازیل میں جنرلوں اور ججوں کو بھی سزائیں دی گئی ہیں۔ تاہم آئین کے مطابق تین ادارے وجود میں آتے ہیں جن کی ماں پارلیمنٹ ہوتی ہے جس کو کچھ سے آئین بنتا ہے۔ جو انتظامیہ اور عدلیہ کو جنم دیتا ہے جن کو ایک شخص واحد جنرل اپنے چند فوجیوں کے ذریعے یرغمال بنا لیتا ہے جس میں انتظامیہ جو تمام اداروں کی خالق ہوتی ہے اور عدلیہ جو آئین اور قانون کی تشریح کرتی ہے۔ سب کے سب بے بس ہوجاتے ہیں جن کے جنرلوں کی چھڑی کے سامنے تمام قلم دوات بے بس ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں ہر طرف حکومت کے بعض ضمیر فروش اراکین یا پھر عدلیہ کے مردہ ضمیر جج صاحبان جنرلوں کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ بہرکیف پچھلے دنوں آئین شکنی کے مجرم جنرل مشرف مرحوم کو پروٹوکول کے ساتھ دفنایا گیا۔ جو آئین کا غدار تھا جن کو پاکستان کے ایک دلیر اور بہادر اور نڈر جج چیف جسٹس پشاور وقار سیٹھ نے اپنے ساتھی جج کے ساتھ مقدمے غدمری میں سزائے موت دی تھی جس پر عملدرآمد تو کجا بلکہ ملک کا غاصب طبقہ چیخ وپکار پر اتر آیا جس میں جنرل جج اور عمران خان سرفہرست تھے جنہوں نے کہا کہ ایک آرمی چیف غدار نہیں ہوسکتا ہے جن کا آئین کے آرٹیکل چھ پر اعتماد نہیں ہے کہ جو آئین شکن کو سزائے موت کا حکم دیتا ہے۔ چاہے مجرم کو زندہ یا مردہ پھانسی پر لٹکایا جائے مگر پاکستان کے عوام مجرموں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے رہے کہ وہ کس طرح آئین توڑتے اور پھاڑتے نظر آتے ہیں اگر چیف جسٹس وقار سیٹھ شہید کی طرح کتا بچہ پوری عدلیہ ہوتی تو شاید جنرل آئین شکنی کے مرتکب نہ ہو پاتے جو اسی طرح برطانیہ کو بچتی جس کا ذکر برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ اگر برطانوی عدلیہ آزاد ہے تو ہمیں جرمنی کے قبضے سے ڈرنا نے چاہئے کیونکہ عدلیہ کسی غیر ملکی حملہ آور کا قبضہ قبول نہیں کریگی۔ تو عوام بھی مزاحمت کریں گے جس سے برطانیہ غیر ملکی قبضے سے بچ جائیگا۔ کاش پاکستان کی عدلیہ بھی آزاد ہوتی تو ونسٹن چرچل کے قول پر عمل کرتی تو جنرلوں کی آئین شکنی سے ملک کو بچا لیتی۔ مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ ججوں میں گندہ خون دوڑ رہا ہے۔ جو آئین کے مدمقابل جنرلوں کے قانون کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں۔ بہرحال پاکستان کی تاریخ میں تین مرتبہ بعض یا ضمیر ججوں نے جنرلوں کی مہم جوئی آئین شکنی کے خلاف فیصلے دیئے ہیں جس میں1972میں جنرل یحیٰی خان کے مارشلاء کو غیر قانونی قرار دیا تھا مگر انہیں سزا نہ ملی۔ پھر2009میں پوری سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں حکم دیا کہ جنرل مشرف کے تمام اقدام غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں لہذا ان پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری قائم کیا جائے جو نواز شریف نے دائر کیا جس پر جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے عدالتی فیصلے میں سزائے موت دی مگر باغی اشرافیہ نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی بجائے مجرم کو بڑی شان وشوکت سے دفنا دیا جس کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here