یہ انتخاب ہے یا ڈھکوسلا؟

0
111
حیدر علی
حیدر علی

بدقسمتی سے پاکستان کا الیکشن کمیشن چھوئی موئی کا پودا بنا ہوا ہے جس کسی نے کوئی چھینک ماری تو الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ انتخابات ملتوی کرانے کی دھمکیاں دے دیں، الیکشن نہ ہونے سے اُن کے مفاد چار گنا زیادہ ہیں، ہر مفاد پرست حلقے میں اُن کی آؤ بھگت اِس طرح ہوتی ہے جیسے وہ الیکشن کمشنر نہیں مغل اعظم ہوں. ایک اشارہ کیا تو چار گاڑیاں مری جانے کیلئے تیار ہو گئیں، پرائیویٹ جیٹ بھی اُن کے سر پہ منڈلانے لگتے ہیں، جب کبھی اُنہوں نے سندھ کا دورہ کیا تو کراچی کی مشہور نمبر ون بریانی ، حیدرآباد کی ملائی جب پنجاب کا دورہ کیا تو ملتان کا آم ، لاہور کی جلیبی مع دودھ کے اور خیبر پختونخواہ کے دورے میں دنبے کی بھونی ہوئی ٹانگ اُن کی خدمت میں حاضر ہو جاتی ہیں. حتی کہ صدر پاکستان بھی اِس قسم کی خاطر مدارات کے بارے میں سوچتے ہی رہتے ہیں۔بعض حلقوں کی جانب سے الیکشن کمشنر سکندر سلطان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن تقرری بھی سربراہان سیاسی جماعت کے اتفاق رائے سے ہوئی تھی اگر آج اُن کی رائے میں کچھ دراڑیں پر گئیں ہیں تو اِسکے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ عام انتخابات سے قبل الیکشن کمشنر کے عہدے کیلئے بھی انتخاب کرایا جائے، بشرطیکہ پاکستان کا خزانہ اِس بات کی اجازت دے،الیکشن کمشنر سکندر سلطان کے خلاف پنجاب اسمبلی کے اراکین نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں اُن سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ چونکہ وہ ایک غیرجانبدارانہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے میں نا کامیاب ثابت ہوے ہیں اِسلئے وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں، پنجاب اسمبلی نے نہ صرف اُن سے بلکہ الیکشن کمیشن کے تمام اراکین سے بھی اِسی طرح کے استعفی کا مطالبہ کیا تھا. تاہم پاکستان کی سیاسی رہنماؤں کی یہ رائے تھی کہ پنجاب اسمبلی کے بیشتر اراکین جاہل جھپٹ اور پودے بونے والوں پر مشتمل ہے اور جو عقل و فہم سے عاری ، کردار کی ناپختگی کے شاہکار ہیں . اِسلئے اُن کے مطالبے پر عمل کرنا حماقت کے مترادف ہوگا۔انتخابات کے انعقاد میں سب سے بڑی رکاوٹ کا شاخسانہ پاکستان تحریک انصاف پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنا ، اُس کے اول سے لے کر آخری صف تک کے رہنماؤں کی پابند سلا سلیاں ، عوام کے مابین اُس جماعت کو ملک دشمن کے طور پر باور کرانا ، اُس کے حمایتیوں کو بلا جواز ، بلا دھڑک گرفتار کرلینا ، اُس کے رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرنااور اُن کے خلاف عشرے قبل کے مضحکہ خیر الزامات کو منظر عام پر لاناشامل ہے اور جو دنیا بھر کے انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والوں کیلئے ایک موضوع بحث بنا ہوا ہے. سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی عدم موجودگی اور اُن کی اڈیالہ جیل میں قید و بند رہنے کی صورتحال میں کیا پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو ایک آزادانہ قرار دیا جاسکتا ہے؟اِس حقیقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عمران خان کی گرفتاری میں پاکستان کا وہی ٹولہ ملوث ہے جو پاکستان کو دولخت کرنے میں پیش پیش تھا، اِس ٹولے میں فوجی جنرلز، نوکر شاہی کے اعلیٰ افسران، میڈیا کے اراکین شامل ہیں، اُن کی سازشیں نہ صرف عمران خان کو الیکشن میں شکست دلوانا ہے بلکہ ٹھیک شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اُنہیں بھی تختہ دار پر چڑھانے کا پلان ہے، مغربی ممالک میں اُن کے خلاف پھیلائے جانے والے پروپگنڈے میں یہ الزام سر فہرست ہے کہ عمران خان ایک ریڈیکل ہیں اور مغربی حکومتوں کیلئے خطرناک عنصر کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران کے خلاف قانونی جرائم کی فہرستیں بھی مضحکہ خیز سے کم نہیں. اُن کے خلاف ایک نہیں دو بلکہ تقریبا” 300 مقدمات درج کروائے گئے ہیں. اُن مقدمات میں ایک لیڈ مقدمہ جی ایچ کیو پر 9 مئی 2023 ء کا حملہ شامل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی فوج اور نہ ہی حکومت کے کارندوں کے پاس کوئی بھی ثبوت موجود ہے کہ جی ایچ کیو یا فوجی تنصیبات پر حملے میں
عمران خان طبیعی طور پر موجود تھے، اور نہ ہی اِس بات کا کوئی ثبوت موجودہے کہ عمران خان نے اُن حملوں کی کوئی ترغیب دی تھی یا شرپسندوں کو اُن حملوں کیلئے ورغلایا تھااگر فوجی تنصیبات یا جی ایچ کیو پر حملہ اتنا ہی سنگین تھا تو آج تک اِس کا مقدمہ کسی فریق پر عائد کیوں نہیں کیا گیااور پاکستان کی پولیس کیوں اب تک پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبائی و قومی اسمبلی کے امیدواروں کواِس سے خوفزدہ کرکے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں، اسلئے ماحصل جی ایچ کیو اور فوجی تنصیبات کا صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقتدار پر قابض رہنے والے ٹولے کی ایک بار گیننگ چِپ ہے۔
اب آئیے ملاحظہ کیجئے پاکستان کے معتبر اخبار روزنامہ جنگ کی رپورٹ کہ کس طرح الیکشن کمیشن کے اراکین پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روک رہے ہیں،تحریک انصاف کے صدر پرویز الہی کی اہلیہ کو گجرات میں آر او کے گیٹ پر روک لیا گیا ، مونس الہٰی کا کہنا ہے کہ جب اُن کی والدہ اپنے کاغذات جمع کرانے آر او کے آفس گجرات پہنچیں تو پولیس اور ریٹرننگ افسر نے دروازہ بند کر کے اندر سے تالا لگا دیا تھا، فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے بتایا کہ اُن کے بھائی فراز چوہدری کو جہلم سے گرفتار کر لیا گیا ہے، وہ فواد چوہدری کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے گئے تھے۔اِسی طرح کی سینکڑوں گرفتاریاں عمل میں آئی ہیںاور اب انتخابات کے ڈھکوسلے کا پردہ واضح طور پر چاک ہوگیا ہے، الیکشن کمشنر نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کو دینے سے یکسر انکار کردیا ہے،پی ٹی آئی کے رہنما جو کاغذات نامزدگی جمع کرانے آرہے ہیں اُن سے اُن کے فارم کو چھین لیا جارہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here