قارئین وطن! پچھلے ہفتہ طبیعت کی ناساز گی کی وجہ سے اپنا کالم درج نہ کر سکا اللہ کا شکر ہے آج بہت بہتر فیل کر رہا ہوں ۔ منٹوں گھنٹوں اور دنوں کے حساب سے وطن کے سیاسی حالات میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہے امپورٹڈ حکومت کی وحشیانہ اور نیوٹرل اسٹبلشمنٹ کی خاموشی کے باوجود عمران خان اپنی منزل ڈی چوک پر پہنچا اور پاکستانیوں نے اپنی آزادی کے لئے بھر پور ساتھ دیا ان کا گھنٹیانہوںنے جس جنون کے ساتھ وحشیانہ ربڑ کی گولیوں کی برسات میں اور آنسو گیس کی شیلنگ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اپنی نظیر آپ ہے بلکہ تمام ملک میں ہجوم باہر نکلا ۔ سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا سب یہ سوال کرتے رہے کہ خان صاحب نے دھرنا کیوں نہیں دیا میں ایک سیاسی ورکر کی حثییت سیسوچتا ہوں کہ خان صاحب نے دھرنا نہ دے کر اپنی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستانیوں کو ناجائیز مسلط کردہ نکے کرائم پرائم منسٹر شہباز شریف اور اس کے وحشی انٹیرئیر منسٹر رانا ثنااللہ کی وحشت سے بچانے کے لئے اور مزید شہادتوں کے نقصان کو روکنے کے لئے بہت بڑا فیصلہ کیا اور ان کی کشت و خون کی چالوں کو دفن کر دیا۔ ونڈر فل خان صاحب لیکن خان کے خلاف پراپگنڈہ کرنے والوں کے کہ عمران کمزور پڑ گیا اور ڈر کر دھرنا دینے سے بھاگ گیا جبکہ ایسا نہیں تھا ،اس نے معصوم بچوں بزرگوں اور ماں بہنوں کی جان کی پرواہ کرتے ہوئے دھرنے کے بجائے لانگ مارچ پر اکتفا کیا اور انقلاب کی باگوں کو تھام لیاجو لوگ خان صاحب کے اس اقدام سے مایوس ہوئے ہیں اور خاص طور پر ملک سے باہر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں !
کہ بدقسمتی کا قائل تو نہیں ہوں لیکن نصر
میں نے برسات میں جلتے ہوئے گھر دیکھے ہیں
باہر بیٹھ کر تماشہ دیکھنے والوں کو اندازہ نہیں کہ اس امپورٹڈ حکومت نے خان کے ساتھیوں کو کچلنے کے لئے کیا کیا پروگرام چاک کئے ہوئے تھے ۔ ابھی تو صرف تین لاشیں گری تھیں آپ سوچیں جو شخص ماڈل ٹان لاہور میں حاملہ عورتوں اور بزرگوں کو اپنی وحشی پیاس بجھانے کے لئے زندہ درگور کر سکتا ہے سوچیں کہ یہاں کیا کیا بربرئیت کے پروگرام بنائے ہوئے تھے ،میری گزارش ہے عمران کے پر ستاروں سے کہ بلکل مایوس نہ ہوں اسٹیٹ کرافٹ اور سیاست کے اپنے اپنے تقاضہ ہوتے ہیں میں ایک بلیو آئی مسلم لیگی ہونے کے ناطے خان کو اس کے مشن پر پلس بٹہ دیتا ہوں، انشاللہ اس کا آزادی کی جانب اٹھا ہوا قدم رنگ لا کر رہے گا بقول میرے مرشد علامہ اقبال !
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انشاللہ جلد بہ دیر اچھا وقت دیکھیں گے ،بڑے بڑے ظالموں سے قوموں کو نجات ملی ہے ہمیں بھی ملے گی،قارئین وطن! اب تو کھل کر یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ امریکہ بہادر نے چلتے پانیوں کی طرح ایک صاف حکومت کے سامنے بند باندھ کر گندے پانیوں کا ریلہ بہا دیا ہے ،صرف اور صرف اس لئے کہ عمران روس کے قریب پاکستان کو لے کر جانا چاہتا تھا لیکن میں حیران ہوں کہ اسٹیٹ کرافٹ کنٹرول کرنے والوں کو عقل کیوں نہیں آتی ان لوگوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے کروڑ عوام کو اس گند کی نظر کیوں کیا جن پر کرپشن کے کیس چل رہے ہیں کہتے ہیں زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو جس سے بات کرو وہ اپنی انگلی جرنل باجوہ کی طرف اٹھاتا ہے ،ایک ریسٹورنٹ میں امریکن میمورئیل ڈے پر لوگ جمع تھے جس کو دیکھو وہ وردی والوں کی بات کرتا ہے ایک صاحب نے کہا کہ جنرل باجوہ کے صاحبزادہ کو امریکہ میں بہت اونچی نوکری پر فائز کیا گیا ہے اور گرین کارڈ بھی عنائیت کیاگیا ہے، اب کس کس کا منہ روکیں گے ہم نے تمام عمر وردی کی عزت کی اور جب بھی کوئی فوجی نظر آیا ،اس کو سلوٹ کیا، اس کی وجہ ہمارے فوجی کی وردی کا رنگ وطن کی مٹی کے ساتھ ملتا ہے لیکن اب وردی کو کرائم حکومت کے گند نے گندہ کر دیا ہے ،اس گند کی وجہ سے وہ اُجلی وردی نظر نہیں آ رہی حالانکہ آج بھی جب فوجی جوان ہماری سلامتی پر اپنی جان نشاور کرتا ہے اس شہید کے لئے آنکھ بھی روتی ہے اور بھی دھڑکتا ہے ۔
قارئین وطن! جب اس رانا ثنا اللہ کی بربرئیت کا تماشہ دیکھ رہا تھا تو میں تاریخ کے پنو میں گم یہ سوچ رہا تھا کہ ہماری یاد داشت بھی کس گند سے کم نہیں آج جب فیلڈ ماشل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب کو پولیس کے ڈنڈو نے زخمی کیا اور میڈیا کے بار بار اس کے زخمی ہونے کا سین دکھایا تو مجھ کو ایوب خان کی بربرئیت کا زمانہ یاد آگیا اس کے مارشل لا اور فسطائی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی ملک کے طول و عرض سے جوانوں اور بزرگوں کے جنازے اُٹھے ،اللہ اللہ میری آنکھوں نے ریگل چوک پر پولیس کی گولیوں سے مرنے والوں کے جنازے دیکھے آج جس طرح اسلام آباد کا آئی جی خواتین اور بچوں پر شیلنگ کر وا رہا تھا اس وقت ایک نامراد ایس پی شریف چیمہ ہوا کرتا تھا اس کی بربرئیت کے سامنے اسلام آباد اور پنجاب کا آئی جی کچھ بھی نہیں ہے میں وہ پولیس کے دو ڈنڈے نہیں بھولتا جو مجھے ہاپسن شوز مال روڈ پر پڑے اس زمانے کے لاہورئیے جانتے ہیں کتنا ظلم روا رکھا تھا، ایوبی حکومت نے یہ عمر ایوب کا والد گوہر ایوب ہی تھا جو دو سو پٹھانوں کو لے کر مادرِ ملت کے حق میں نعرے لگانے والوں پر ٹوٹ پڑا جب گوہر ایوب اسپیکر بنا تو میں بھی اس اسمبلی میں مہمانوں کی گیلری میں بیٹھا تھا جب اس کا انتخاب ہو گیا تو میرے مینٹر اور اس وقت پاکستان مسلم لیگ جس کے صدر محمد خان جونیجو تھے کہ سیکرٹری جرنل اقبال احمد خان مرحوم اللہ ان کے درجات بلند کرے اس سے ملو انے کے لئے لے گئے، میں بھی لائین میں لگا ہوا تھا خدا کی قسم جب ہم دو چار لوگ رہ گئے تو مجھے خیال آیا نصراللہ یہ تو وہ شخص ہے جس کے باپ کی وجہ سے اتنا کشت و خون ہوا اور جس نے میری لیڈر مادرِ ملت کو پہلے دھن دھونس اور دھاندلی سے شکست دی پھر اس کو شہید کر وادیا، تم اس سے ہاتھ ملائو گے تو روز قیامت اپنے باپ کو کیا منہ دکھلا گے میں لائین سے نکل آیا اقبال احمد خان صاحب مجھ سے بڑے ناراض ہوئے ،میں نے وردی والوں کے بڑے بڑے ظلم دیکھے ہیں لیکن جب ان وردی والوں کو اپنے ملک پر قربان ہوتے دیکھا تو ایوب سے لے کر مشرف تک سب کے گناہوں کو بھول گئے ، شاید جرنل باجوہ کی کہیں چھپی شرم عود آئے وہ عمران کو حکومت میں لائے یا نہ لائے حکومت پر مسلط گند سے پاکستان کو پاک کردے اس کے پاس اپنی نیک نامی بنانے کے لئے بہت تھوڑا وقت ہے ۔
قارئین وطن! آخر میں میں عمران خان سے مایوس ہونے والوں کو یہی کہوں گا کہ نہ ہو نا اُمید نا اُمیدی زوالِ علم و عرفاں ہے ،ہمیں اس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، پاکستان کو آزاد کر وانا ہے، اللہ رازق ہے اور اللہ ہی زندگی موت کا مالک جو آخری سانس لکھی گئی ہے کسی امریکہ روس یا چائینہ سے ٹلنے والی نہیں، پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔
٭٭٭