تل ابیب (پاکستان نیوز) اسرائیل کی جانب سے غزہ ہسپتال پر حملے میں پانچ صحافیوں کے ساتھ طبی کارکنوں اور دیگر کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کو شدید مذمت کا سامنا ہے، فلسطینی وزارت صحت کے مطابق حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔وزارت نے کہا کہ اسرائیل نے خان یونس کے ناصر ہسپتال پر یکے بعد دیگرے حملے کیے جو صرف چند منٹوں میں الگ تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بعد میں اعتراف کیا کہ صحافیوں اور پہلے جواب دہندگان کو ہلاک کر دیا گیا تھا، اور ان کی موت کو “افسوسناک حادثہ” قرار دیا تھا۔ہسپتال کے ترجمان اور نرسنگ کے سربراہ ڈاکٹر محمد صقر نے بتایا کہ پانچ صحافی اور چار ہیلتھ ورکرز کی موت ہو گئی ہے۔ہلاک ہونے والے صحافیوں میں محمد سلامہ، الجزیرہ کا کیمرہ مین، حسام المصری، جو رائٹرز کا کنٹریکٹر تھا، مریم ابو دگا، جس نے پوری جنگ میں ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) اور دیگر آؤٹ لیٹس کے ساتھ کام کیا، اور فری لانس صحافی معت ابو طحہ اور احمد ابو عزیز شامل ہیں، غزہ کی شہری دفاع کی تنظیم نے کہا کہ اس کے عملے کا ایک رکن بھی اس حملے میں مارا گیا۔اسرائیلی حملے ہسپتال کی ایک بالکونی سے ٹکرا گئے جسے صحافی خان یونس کی بلندی پر دیکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔وزارت صحت نے بتایا کہ ہسپتال پر پہلا حملہ ناصر میڈیکل کمپلیکس کی چوتھی منزل سے ہوا، اس کے بعد کچھ ہی دیر بعد دوسرا حملہ ہوا جس نے ایمبولینس کے عملے اور ایمرجنسی ریسپانس کو نشانہ بنایا۔جائے وقوعہ سے حاصل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ساقر پہلی حملے کے بعد خون میں بھیگا ہوا کپڑا اٹھائے ہوئے ہے جب ایک اور دھماکہ عمارت کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، ہوا دھویں سے بھر جاتی ہے اور لوگوں کو ڈھانپنے کے لیے بھاگتی ہے۔الغد ٹی وی کا ایک لائیو کیمرہ ہسپتال کی ایک تباہ شدہ سیڑھی پر ہنگامی کارکنوں کو دکھا رہا ہے جب دوسرا حملہ عمارت سے ٹکرایا۔جب ہم زخمیوں کو باہر نکال رہے تھے، جب سول ڈیفنس اور ایمرجنسی ورکرز موجود تھے، دوسری بار سیڑھیوں کو نشانہ بنایا گیا۔سول ڈیفنس کے ایک کارکن احمد صیام نے جو زخمی بھی ہوئے تھے نے کہا کہ ہم نے اوپر جا کر شہدا کو ٹکڑوں میں پایا۔ ہم نے دو شہداء کو باڈی بیگز میں رکھا اور جب ہم تیسرے کو اکٹھا کر رہے تھے جس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے، ہم ایک اور دھماکے سے چونک گئے۔یاد رہے کہ غزہ میں قحط اور پیڈوفائل اسرائیلی اعلیٰ اہلکار کی امریکا میں گرفتاری اور رہائی کا واقعہ جی ہاں غزہ کی مقتل گاہوں میں انسانی جان لینے کے لیے ایک اور ہتھیار (بھوک) کا سہارا لیا جارہا ہے کیونکہ بنیامن نیتن یاہو کے احکامات پر چلنے والی اسرائیلی قابض افواج کے لیے 60 ہزار افراد کو شہید کرنا کافی نہیں تھا۔ یہ تعداد انہیں کے ڈیٹا بیس کے مطابق ہیں کہ جس کے اعتبار سے جنگ کے پہلے مرحلے میں 83 فیصد نہتے شہری مارے گئے اگر پہلے مرحلے کے مطابق قتل عام کا سلسلہ جاری رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اب تک 50 ہزار معصوم شہری شہید ہوچکے ہیں۔اسرائیلی قابض افواج جنہیں آئی ڈی ایف بھی کہا جاتا ہے، کی جانب سے لگائی گئی انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں نے قحط کو جنم دیا ہے۔ غزہ کی پٹی پر غذائی قلت اور موت کا راج ہیجیسا کہ اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ ہر 5 میں سے ایک گھرانہ یعنی غزہ میں تقریباً 5 لاکھ فلسطینیوں کو خوراک اور غذائیت کی شدید کمی کا سامنا ہے جبکہ ہر تین میں سے ایک یا اس سے زائد تعداد غذائی قلت کا شکار ہے۔اسی طرح ہر 10 ہزار میں سے دو افراد غذائیت کی کمی اورمتعلقہ بیماریوں کی وجہ سے روزانہ شہید ہورہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یقینی طور پر روح دہلا دینے والے ہیں۔972 ویب میگزین جسے اسرائیلی اور فلسطینی صحافی چلاتے ہیں، نے اسرائیلی وزارت انٹیلی جنس کے ڈیٹا بیس پر مبنی ایک اسٹوری شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینیوں میں سے صرف 17 فیصد کی شناخت حماس کے عسکریت پسند یا دیگر جنگجو کے طور پر ہوئی ہے۔ دیگر شہدا نہتے شہری تھے۔دوسری جانب اسرائیل دعویٰ کرتا رہا ہے کہ ‘مارے جانے والوں کے تناسب’ میں 50 سے 60 فیصد عسکریت پسند ہیں۔ اسٹوری میں یہ بھی کہا گیا کہ شہدا میں 60 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔گمان ہوتا ہے کہ جیسے ان کے لیے غزہ میں مکمل اور تیزی سے فلسطینیوں کے خاتمے کے ہدف کو حاصل کرنے میں فاقہ کشی اور قتلِ عام ناکافی ہے۔ لہٰذا نوبیل امن انعام کے خواہشمند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کو گرین سگنل دے دیا ہے جس کے تحت قابض افواج کے مضبوط 60 ہزار اہلکاروں کو جمع کیا گیا ہے۔ جبکہ بڑی تعداد میں ریزو فوجیوں کو بھی ڈیوٹی پر واپس بلایا جارہا ہے۔قبضے کے منصوبے اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے غزہ کو قحط زدہ قرار دینے نے ‘جمہوری اور مہذب’ یورپی حکومتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے کہ وہ فوری طور پر ان منصوبوں کو نامنظور کرتے ہوئے بیانات تو جاری کرسکتے ہیں مگر دوسری جانب وہ نسل پرست حکومت کو جدید ہتھیاروں و دیگر دفاعی ساز و سامان کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نسل پرست اسرائیلی حکومت کو نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کو قتل کرنے، انہیں معذور کرنے اور زبردستی بے گھر کرنے کے اپنے اقدامات میں بے مثال استثنیٰ حاصل ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی قابض افواج کے حمایت یافتہ آبادکار ہنگامہ آرائی میں مصروف ہیں۔ یروشلم میں مقیم فلسطینیوں کی کہانی بھی مختلف نہیں اور یہی استثنیٰ انہیں امریکی سرزمین پر بھی حاصل ہے۔ گوگل سے آپ معلوم کرلیں کہ کتنے اسرائیلی پیڈوفائلز (بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے والے) کو ایف بی آئی اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ٹاسک فورسز نے گرفتار کیا ہے اور ان میں سے کتنے افراد کی ضمانت ہوگئی اور انہیں رہا کردیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے کی کہانی آزاد صحافی شون کنگ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کی۔













