بیچاری قوم!!!

0
80
شبیر گُل

گزشتہ دنوں امریکہ میں مڈٹرم الیکشن ہوئے جس میں ریپبلکن پارٹی کا پلہ کچھ بھاری رہا۔ جس سے 2024 میں آئندہ ھونے والے انتخابات کا نقشہ متعین کردیا،مڈٹرم الیکشن میں سینکڑوں مسلمان چھوٹی بڑی سیٹ پر حصہ لے رہے تہے جن میں سے چند کامیاب بھی ہوئے۔اس مرتبہ مسلمان ووٹرز اپنے من پسند امیدواروں کو ووٹ کرنے کے لئے متحرک نظر آئے ۔ جو پہلے نہیں دیکھا گیا۔ خصوصا عرب ،انڈین اور بنگلہ دیشی ووٹرز پہلے سے زیادہ متحرک نظر آیا۔امریکی اور یورپین سیاست میں celerity ہے ۔ وہاں فوج کو دن میں گالیاں،میرجعفر،میر صادق کے القابات اور رات کو اسد عمر اور پرویز خٹک کو ملاقات کے بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ نہ ہی قوم کو نفرت کی طرف آمادہ کی جاتا ہے اور نہ قوم کی تقسیم کی جاتی ہے۔ شکل مومناں اور کرتوت کافراںنہیں ھونا چاہئے۔ ھمارے کان بند، آنکھیں اندھی ھیں۔قرآن میں الیکشن کے لئے اپنے آپکو پیش کرنے والے کے اوصاف پڑھتے ھیں ۔ لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ۔ھم اللہ کے دین کا دم بھرتے ھیں ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ھیں ۔ پاکستان کے نظریات سے والہانہ عقیدت و محبت کرتے ھیں ۔لیکن ھماری ترجیحات قرآن و رسالت سے یکسر مختلف ھیں ۔ نظریہ پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ھمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ مثالیں اصحاب رسول کی دیتے بیں ۔ ایمان و کردار کی بات کرتے ھیں ۔ لیکن جب ایمان کو کسوٹی پر پرکھنے کا موقع آتا ہے تو ھم اپنی پسند اور ناپسند کے آگے سر خم کر لیتے ھیں ۔ خالانکہ یہی وہ موقع ھوا کرتا ہے کہ جب اللہ رب العزت کی کتاب قرآن حکیم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر چلنے کا موقع میسر آتا ہے ۔ اپنی ایمانت سب سے زیادہ باکردار، خوف خدا رکھنے والے ۔ملت کے اجتماعی مفاد کے خوگر کے ساتھ کھڑے نہیں ھوتے۔ ھم جھوٹوں ،منافقوں ۔ دھوکے باز ،مفاد پرستوں اور اقتدار کے حریص لوگوں کا ساتھ دیتے ھیں ۔ غیر مسلم ممالک حصوصا امریکہ اور یورپ کے انتحابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی اہلیت اور کردار دیکھ کر ووٹ دیا جاتا ہے۔ اسکے ماضی کو جانچا جاتا ہے۔پارٹی پالیسیز کو دیکھا جاتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک میں ووٹر نہ کردار دیکھتا ہے اور امیدوار کی اہلیت ۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے قوم کو کرپشن،نفرت اور شخصی غلامی کا تحفہ دیا ہے۔صحافت نے قوم کو پٹواری ۔ جیالا اور یوتھیا عطا کیا۔ایک طبقہ کا ہیرو سلیم صافی ،دوسرے کا عمران ریاض اور تیسرے کا حامد میر ہے۔جو انتہائی سطحی صحافت سے عوام کو گمراہ کر رہے ھیں۔ھم 75 سال سے وہیں کھڑے ھیں۔جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ملک تو بزرگوں کی قربانیوں سے اللہ نے عطا کیا لیکن ذہنی غلامی میں مبتلا قوم نہیں معلوم کب آزاد ھو ۔ ؟ ھم امریکہ جیسی سوسائٹی میں رہ کر بھی ذہنی پسماندگی کا شکار ھیں۔ قومی سوچ کی بجائے سطحی سوچ اور پارٹی ذہنیت سے باہر نہیں نکل سکے۔ کبھی ایشین ٹائیگر۔ اور کبھی تبدیلی کے نام پر بیووقوف بن رہے ھیں۔ قارئین!۔ , چند سال پہلے سرگودھا میں ایک پیر صاحب کا دعوی تھا کہ وہ مرے ہوئے اپنے مرید کو زندہ کر دینے کی صلاحیت و علم رکھتا ہے”(نعوذباللہ) ایک دن قریبی گاں کے کچھ مرید پیر صاحب کے پاس جمع تہے، تو پیر نے پر جوش انداز میں کہا کہ!
“اگر آپ میں سے کچھ لوگ مرنے کو تیار ہو جائیں تو وہ انہیں مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا ”
7 افراد تیار ھو گئے،
پیر صاحب انہیں کمرے میں لے گیا اور ساتوں کی گردنیں کاٹ دیں،
سر باہر لا کر انکے رشتہ داروں کو دکھا دئیے اور تسلی دی کہ صبح یہ سب لوگ زندہ ملیں گے،
رشتہ دار اور مجمع پیرصاحب کی علمیت کے نعرے لگاتا رہا اور یقین کئیے ہوئے تھا کہ یہ سب مقتول صبح صحیح سلامت ملیں گے،
رات گئے کسی نے پولیس کو جا کر پوری واردات بتا دی،
7 افراد کا قتل…..
پولیس کیسے خاموش رہ سکتی تھی، سینئر افسران سمیت پولیس فورا جائے وقوعہ پر پہنچ گئی،
قاتل پیرصاحب کو گرفتار کر لیا گیا، پیرصاحب کے مزید مریدین بھی اکھٹے ہو گئے مگر وہ سب پیر کو قاتل ماننے سے انکاری تہے،
صبح بھی ہو گئی، مردے زندہ نا ہوئے۔
اب مریدین نے کہنا شروع کر دیا کہ
“” پولیس کی مداخلت کی وجہ سے پیرصاحب کا عمل مکمل نہیں ہو سکا، اسی لئے مردہ زندہ نہیں ہو سکے،
ہمارے لوگوں کا قاتل پیر نہیں بلکہ پولیس ہے”بہت زیادہ سمجھانے بجھانے کے باوجود مقتولین کے رشتہ دار اور دیگر مریدین یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ پیر صاحب مردہ کو زندہ نہیں کر سکتا۔
کئی دنوں تک مریدین متعلقہ تھانے کے سامنے احتجاج کرتے رہے کہ ہمارے پیر صاحب کو رہا کریں اور مقتولین بھی واپس دیں،پیر صاحب انہیں زندہ کر دے گا،
کئی دنوں بعد احتجاج کم ہوتا ہوتا ختم ہو گیا ،
لیکن کئی مریدین کا پیرصاحب کی کرامات پر یقین کمزور نا ہوا اور وہ پولیس کو ہی ذمہ دار سمجھتے رہے.
ایک عالمی ادارے نے خفیہ سروے کرایا ہے،جس کے مطابق 2018 میں عمران کی حمایت کرنے والوں میں سے 66فیصد افراد سمجھ گئے ہیں کہ وہ غلطی پر تھے، انکے ساتھ بہت بڑادھوکا ہوا ہے،
لیکن 33 فیصد یوتھیاز اب بھی فنی گالا پیرصاحب کی صلاحیتوں و کرامات پر یقین کئے ہوئے ہیں،
انہیں یقین ہے کہ پیر صاحب جو گردنیں کاٹ رہا ہے وہ انہیں دوبارہ جوڑ کر بندوں کو زندہ کر دے گا۔
جہالت اور یوتھیاپا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں،لیکن اس کا علاج ناممکن ہے.
کیونکہ ھمارا واسطہ ایسے ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز سے ھے جو اقتدار کے پجاری ھیں۔اور ٹرک ڈرائیور جیسے۔
ایک ٹرک ڈرائیوراپنے شاگرد کے ساتھ ایک ہوٹل پر رکا کھانا کھایا اور دو چرس کے سگریٹ پئے اور شاگرد کو بولا کہ چل تو بھی کیا یاد کرے گا آج ٹرک تم چلاو، لیکن ٹرک چلانے سے پہلے ٹائر پانی چیک کر لو۔
شاگرد بہت خوش ہوا کہ آج ٹرک چلاوں گا، اس نے جلدی سے ریڈی ایٹر کا پانی چیک کیا، ٹائر کی طرف آیا تو دیکھا ٹائر پنکچر تھا، اس نے استاد کو ٹائر کے بارے میں بتایا، استاد نے کہا جلدی سے بڑا جیک لگاو اور ٹائر بدل دو اتنی دیر میں استاد نے دو اور چرس کے سگریٹ پئے، جب ٹائر بدل دئے تو استاد نے شاگرد کو کہا کہ میں اب تھوڑی دیر سونے لگا ہوں تم ٹرک چلانا شروع کر دو۔کنڈکٹر کچھ جوش میں اور کچھ چرس کے نشے میں سپیڈ دئے جا رہا تھا، کافی دیر بعد جب استاد کی آنکھ کھلی تو اس نے کنڈکٹر سے پوچھا۔
ہاں بھائی کنڈکٹر کہاں پہنچے؟
کنڈکٹر بولا۔ استاد جی جگہ کا تو نہیں پتا لیکن میں کافی سپیڈ و سپیڈ جا رہا ہوں۔
استاد بولا۔ اچھا تم گاڑی سائیڈ پر روکو میں خود چلاتا ہوں۔
شاگرد نے ایکسلیٹر سے پاوں ہٹایا اور گاڑی روک دی، استاد نیچے اترا تو دیکھا سامنے ایک ہوٹل ہے۔
استاد نے ہوٹل والے سے پوچھا کہ بھائی یہ کونسی جگہ ہے؟
ہوٹل والا حیران و پریشان ان دونوں کو دیکھنے لگا اور بولا جناب آپ تو اسی جگہ پر ہیں جہاں سے آپ نے کھانا کھایا، ہم تو سمجھے شاید ٹرک میں کوئی خرابی ہے اس لئے ٹرک جیک پر لگا کر آپ ایکسلیٹر دئے جا رہے ہیں۔
یہی حال 75 سالوں سے ہمارے ملک کا ہے، اقتدار کے نشے میں دھت ،کرسی کی ہوس کے پجاری حکمران طبقہ پاکستان کو ایسے ھی چلا رہے ہیں، نہ پاکستان آگے جاتا ہے ۔اور نہ قومی ذہنیت۔
خان صاحب ایک طرف امریکہ کو برا بھکا بولتے ھیں اور دوسری طرف پارٹی لیڈرز جو امریکہ سے تعلقات اچھے کرنے اور عمران خان کے بارے اچھا تاثر قائم کرنے کا ٹاسک پارٹی لیڈرز کودیا گیا ہے۔
عوام پہلے ھی مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی اور مشرف کی زخم خوردہ ہے۔ اب کبھی حقیقی آزادی، کبھی جہاد اور کبھی ریاست مدینہ کے نام پر بیووقوف بنایا جا رہا ہے۔
جھوٹ اور منافقت کا سودا آسانی سے بک جاتا ہے۔سچائی اور ایمانداری کے خریدار کم ملیں گے۔یا وہ منافقت کی دھول میں دب گئے ھیں ۔ مہنگائی سے روزانہ ھماری گردنیں بھی کٹ رہی ھیں۔ اور ھم ترقی کا لالی پاپ لئے نواز شریف ،عمران خان اور بھٹو مرحوم کے سحر سے باہر نہئں نکل سکے۔ بھٹو کی مساوات ۔ضیاالحق کے اسلامی نظام ،نواز شریف کے ایشین ٹائیگر ۔مشرف کا سب سے پہلے پاکستان اور اب عمران خان کی تبدیلی اور ریاست مدینہ کے خواب میں مدھوش ھیں۔
وہی گندے انڈے پارٹیاں بدل کر کبھی ادھر اور کبھی ادھر ۔ یہ مینڈک کیطرح ھیں کبھی ادھر پھدک اور کبھی ادھر پھدک۔
خدارا ۔ اس جھوٹ اور نفرت کی سیاست سے باہر آئیں ۔جماعت اسلامی کی شکل میں ایماندار، محب وطن، مخلص اور نظریاتی لوگ موجود ھیں ۔ جنکا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ۔ اور نہ ھی یہ لوٹ مار کرنے والے لوگ ھیں ۔اس بیچاری قوم کو اپنی عینک تبدیل کرنا پڑے گی ۔ جو انہیں صحیع راستے دکھائے۔
اور وہ راستہ اور عینک صرف جماعت اسلامی فراھم کرسکتی ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس قوم کو شعور عطا فرمائے تاکہ ھم ایسے افراد کا انتخاب کرسکیں جو اپنی جیبوں کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر یقین رکھتے ہوں ۔ جو مستقبل کے معماروں کو مفت تعلیم، مفت انصاف فراہم کرسکیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here