برطانوی اور امریکی میڈیا کا فرق اتنا ہے کہ برطانوی میڈیا اندر کی بات تحقیقات کرکے عوام کے سامنے لاتا ہے اور عوام کی بھلائی کے لئے سامنے آتا ہے چاہے وہBBCہو یا ڈیلی میل اسکے علاوہTHE TIME، THE SUN، DAILY MIRROR، DAILY EXPRESSاور DAILY MAIL۔ پچھلے دنوں جب ڈیلی میل نے مشہور زمانہ شہباز شریف کے کرپشن کی خبر ڈالی تو شہبازشریف نے ڈیلی میل کو پاکستانی اخبار اور وہاں کی عدالت کو اپنی زرخرید لونڈی سمجھ کر عزت ہتک کا دعویٰ کردیا ،وہ شخص جس کے پاس عزت نام کی کوئی چیز نہیں اسے ایسا کرنے پر کس نے اُکسایا ہم جاننا چاہتے ہیں لیکن یہ پورا خاندان پاکستان میں نام کما چکا ہے اور اگر جنرلز امریکہ کے اشارے پر نہ ہوتے تو یہ جیل میں سٹر رہے ہوتے، ساتھ میں یہ جنرلز بھی اندر ہوتے۔ پچھلے ہفتہ شہبازشریف جب لندن پہنچے تو فیصلہ آچکا تھا وہ مقدمہ ہار چکے تھے۔ جج میتھونکلین جو لندن ہائی کورٹ کے جج ہیں نے فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ہرجانہ بھرنے کا بھی حکم سنا دیا جس پر شہبازشریف کے وکیل نے مہلت مانگی کہ وقت درکار ہے جو جج نے مسترد کردیا۔ اس بارے میں انکی وزیر اطلاعات نے کورٹ پر الزام دکھا کر مقدمہ کی کارروائی میں ڈیڑھ سال ضائع کئے وہ بھول گئیں کہ پاکستان میں تو پوری عمر ضائع کرنے کا ایوارڈ ہماری عدالتوں کو ملا ہوا ہے۔ مریم اورنگ زیب نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی پاکستانی کورٹ ہے جہاں مال کھلا کر فیصلہ بدلہ جاسکتا ہے یا گواہ یا رپورٹر کو ارشد شریف کی طرح غائب کیا جاسکتا ہے ،صحافی ڈیوڈروز نے کہا انکی دی گئی اسٹوری جو شائع کی گئی حقائق پر مبنی ہے۔ اور جج نے کہا قانون امیر اور غریب کے لئے یکساں ہے وقت لگنے کی وجہ مکمل اطمینان کرنا تھا کہ فیصلہ غلط نہ ہو۔ لہٰذا30ہزار پونڈ کا ہرجانہ دینا ہوگا،23نومبر تک اسکے علاوہ قانونی کارروائی کا خرچہ شہباز کے داماد عمران علی یوسف کو27ہزار55پونڈ بھی دینا ہونگے ۔عدالت کا وقت برباد کرنے پر۔
یہ تو لندن کے شام ٹیبلوانڈ اخبار ڈیلی میل کے بارے میں تھا لیکن ایک اور اخبار ہے جو نیویارک سے نکلتا ہے وال اسٹریٹ جرنل جیسے کئی سال ہوئے لندن کےTHE SUNکے مالک رابرٹ مرڈاک نے خریدا تھا تاکہ امریکہ میں میڈیا پر کنٹرول کرکے وہ کارپوریٹ امریکہ کے ارب پتیوں اور انکی کمپنیوں کے خلاف آواز دبا سکیں اور عوام کو گمراہ کرسکیں نیویارک پوسٹ کے بھی یہ ہی مالک ہیں اسی ہفتہ انہوں نے عمران خان کے خلاف بے معنی بے بنیاد الزامات کی بوجھاڑ کردی اور الزامات لگانے والا وال اسٹریٹ جرنل کا اسلام آباد بیورو کا نمائندہ سعید شاہ ہے کیاہم اس آرٹیکل میں الزام تراشی کرنے والے ایسے جرنلسٹ پر یقین کرسکتے ہیں جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں کہ عمران خان ملک دشمن ہے(بقول اس کے) اور وہ فوج کے خلاف ہے۔ جب کہ عمران اپنی ہر تقریر میں واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ عوام اور پاکستان کو ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے عمران کا اشارہ ہمیشہ ان جنرلز پر ہے جو بیرونی ملک کے اشاروں پر ہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں وال اسٹریٹ(اس کا قصور نہیں وہ سعید شاہ پر اعتماد کریگا) کے اس نمائندے نے کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ لکھا ہے جو جیو ٹی وی اور دوسرے چینلز پر سنسنی خیز خبر کے طور پر عوام کے سامنے آیا ہے اس کے پیچھے انڈیا بھی ہوسکتا ہے جو عمران کو ڈھال بنا کر فوج کے خلاف مہم میں شامل ہے ایک کارٹون میں عمران خان سارے جنرلز کے سامنے کھڑا دونوں ہاتھوں میں بیٹ اٹھائے چیلنج کرتا دکھایا ہے اور حد تو یہ ہے کہ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو انڈیا میں ایک کانفرنس میں عمران کے خلاف بول رہی ہیں اور ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ وہPTIکو جوائن کرینگی پھر یہ بھی ممکن ہے پاکستان سے ایٹمی تنصیبات کو نکالنے کا بہانہ ڈھونڈا جارہا ہے اگر یہ غلط ہے تو باجوہ جواب کیوں نہیں دیتے ملاحظہ ہو سعید شاہ نے اخبار کے توسط سے کیا کیا باتیں گڑھی ہیں اپنے آرٹیکل میں۔
٭ عمران خان کے مطالبات ماننا دھونس کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔
٭ فوج بکھرتی ہے تو پاکستان بھی بکھر جائے گا۔
٭ اسکالرز(نام بتائو) مانتے ہیں پاکستان کو جوڑ کر رکھنے میں فوج کا بڑا کردار ہے۔
٭ عمران کہتا ہے میرے لئے کھیلو ورنہ حد تک جائونگا۔
٭ سیلاب سے تباہ پاکستان کے مفاد میں عدم استحکام نہیں ہے۔
٭ پاکستان فوج سب سے فعال ادارے کے طور پر خود کو منوا چکی ہے۔
٭ فوج مخالف مہم ملک اور فوج کے لئے نقصان دہ ہے۔
٭ عام پاکستانی عدم استحکام سے مزید متاثر ہوگا۔
٭ عمران نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔
٭ عمران کو خود فوج کا کٹھ پتلی قرار دیا جاتا تھا۔
٭ ملک کے لئے فوج کی خدمات زیادہ اہم ہیں۔
٭ امریکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں عدم استحکام کے لئے تیار رہے۔
٭ عمران فوج کو بدنامی کی حد تک لے جانا چاہتے ہیں۔
٭ سینئر فوج افسران کو نشانہ بنانا انتقامی کارروائی ہے۔
٭ بلیک میلنگ تسلیم کرنا ادارے کو کمزور بنانے کے مترادف ہے۔
اگر ان ساری باتوں پر غور کریں توایک بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ یہ آرٹیکل کس کے ایما پر لکھا گیا ہے کیا امریکہ کو اندر کا بھیدی نہیں کہہ رہا کہ ایٹمی تنصیبات خطرے میں ہے جسکا فائدہ اٹھا کر انڈیا امریکہ کو بھڑکائے گا اور انجام سب کو معلوم ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے عمران خان نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جو فون کے خلاف ہو۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں اس آرٹیکل کے پیچھے کیا سازش ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے صحافیوں کی اکثریت اپنی جان بچانے کے لئے جی حضوری کرتے ہیں اگر انہیں ملک کے اندر رہنا ہے ورنہ ارشد شریف کی مثال تازہ ہے۔
اس مضمون کی ایک ایک بات پیچھے ایک سازشی پیغام ہے اور سعید شاہ جانتے ہیں وہ وال اسٹریٹ کے علاوہ۔ دی گارجین۔ دی انڈپینڈنٹ کے علاوہ کئی اخبارات میں لکھتے ہیں لیکن ہم وال اسٹریٹ جنرل میں چھپے اس گمراہ کن آرٹیکل کو عوام میں نفرت پھیلانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں وال اسٹریٹ کو پاکستان کی اندر کی سیاست کا بھی معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ لاقانونیت عروج پر ہے۔ بقول بائیڈین سب سے زیادہ خطرناک ملک صحافی برادری کے لئے جو حقیقت کو منظر عام پر لانا چاہتے ہیں۔ فوج ہر ملک کی ضرورت ہے لیکن عوام اور عمران خان فوج کا رول مثبت چاہتے ہیں کہ وہ باہر کے اشارے پر راتوں رات ایک جمہوری حکومت کو باہر نہ کریں ارشد شریف کے قاتلوں تک ISIرسائی کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائے اور اپنی پاک دامنی کا ثبوت دے فوج عوام کی حفاظت اور عدلیہ کی ناانصافی سے بچا سکتی ہے۔
٭٭٭٭