”ماں” دنیا کا انتہائی خوبصورت اور وفا سے بھرپور رشتہ ہوتا ہے ، جس کے خلوص پر رتی برابر بھی شک نہیں کیا جا سکتا ہے ، ماں وہ تنا ور درخت ہو تا ہے جوکہ اپنی آغوش میں پروان چڑھنے والے چھوٹے سے پودے کو ایک ”تنا ور” اور” پھل درار” درخت بننے تک اپنی آغوش میں لیے رکھتا ہے ،بچہ ماں کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دوسروں کو راہ دکھانے لگتا ہے ، ماں اپنے بچوں کا بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک بھی ساتھ نبھاتی ہے بشرطیکہ اللہ اتنی عمر سے نوازے، دعا ہے کہ اللہ سب کی مائوں کو سلامت رکھے اور جو محروم ہوگئے ان کی بھی کسی وساطت سے صلہ رحمی جاری رہے۔آج جو اپنے آپ کو دنیا کا ترقی یافتہ معاشرسمجھتے ہیں، وہ سال میں ایک مرتبہ “مادر ڈے” مناکر اپنی ماوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی مائیں دنیا میں نہیں ہیں وہ ان کی قبروں پر جاتے ہیں پھولوں کے گلدستے رکھتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور روایتی اگر بتی کی خوشبو نچھاور کرتے ہیں جن کی مائیں زندہ ہیں وہ اولڈ ہوم میں اپنی مائوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ تحائف اور پھول پیش کرتے ہیں جہاں مائوں کو پورے سال اپنی اولاد دیکھنے اور ملنے کا انتظار رہتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے اور “مادر ڈے” منا کر مائوں کا حق ادا کر دیا ہے لیکن ہمارے اسلام اور ہمارے پیغمبر نے تو ہمیں پوری زندگی، پورے سال، پورے ماہ، پورے ہفتے، پورے دن، ہر گھنٹے، ہر منٹ اور ہر لمحے کو ماں اور باپ کے لیے وقف کرنے کا حکم دیا ہے خوش قسمت ہیں وہ جن کی مائیں زندہ ہیں۔ وہ دنیا کے آدھے تفکرات سے آزاد ہیں۔ گھروں میں ہمارا سب کچھ ہی ہماری ماں ہوتی ہے۔ ہمارے گھروں کا پورا ہی نظام ان کے گرد گھومتا ہے۔ ہمارے والدین ہمارے گھروں کے تا حیات سربراہ ہوتے ہیں کیونکہ والدین کی خدمت اور ان سے محبت کے بغیر ہمار دین ہی ادھورا ہے۔ ان کے بغیر ایک لمحہ بھی جینے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔جب ہماری مائیں دنیا چھوڑتی ہیں ہمیں دنیا کی کڑی دھوپ کا احساس ہوتا ہے پھر تو وہ پوری زندگی ہمارے دلوں میں بس جاتی ہیں۔ زندگی کا کوئی لمحہ ان کی یاد سے خالی نہیں ہوتا۔ ان کی دعائوں کے سا ئے تلے جیتے ہیں اور انکی مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم ان کا حق پوری طرح ادا نہیں کر پاتے۔ کہتے ہیں مائیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں، ہماری زندگی میں، ہمارے دل میں، ہمارے ذہنوں اور یادوں میں اس لیے ہمار ے ہاں ہر وقت “مادر ڈے” ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ایک مسلمان نوجوان طوطا خان بگٹی نے چند سال قبل “مادر ڈے” منانے کی انوکھی روایت پیش کرکے مائوں سے محبت کی لازوال تاریخ رقم کردی ہے۔ شاید اس سے بہتر اور اچھا “مادر ڈے” کوئی اور منا یا جا سکا ہو؟ڈیرہ بگٹی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے اپنا جگر عطیہ کر دیا۔ جس سے اسکی ماں کو تو نئی زندگی مل گئی لیکن بیٹا خود اپنی زندگی کی بازی ہارگیا۔ ماں کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے اور جہاں ماں اپنے بچوں کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتی ہے۔ وہیں لائق اولاد بھی والدین کے لیے قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتی۔ ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے ثابت کردیا کہ آج بھی دنیا میں ماں کا حق ادا کرنے والے لوگ موجود ہیں۔مائوں کا عالمی دن اس بات کا متقاضی ہے کہ ہمارا جذبہ صرف باتوں تک ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی قربانی اور ایثار نظر بھی آنی چاہئے۔ مادر ڈے دراصل ماوں کی عظمت، شان اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ان کے لیے کچھ بھی کرنے کے کے جذبے کی حوصلہ افزائی کا دن ہوتا ہے۔پاکستان سمیت اکثر ممالک ماؤں کا عالمی دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا کرتے ہیں مگر کئی ایسے ممالک بھی ہیں جو یہ دن جنوری، مارچ، نومبر یا اکتوبر میں مناتے ہیں۔پچانوے برس قبل امریکی صدر وڈرو ولسن نے اعلان کیا تھا کہ ہرسال مئی کا دوسرا اتوار یومِ مادر کے طور پر منایا جائے گا۔ تب سے یہ دن رفتہ رفتہ کئی اقوام اور ممالک نے اپنا لیا۔قدیم یونان میں کئی دیوتاؤں کو جنم دینے والی سائی بیلے کا یادگاری دن بچوں کی جانب سے ماں کو تحائف دینے کا دن تھا۔رومن لوگ جونو دیوی کی یاد میں ایک دن مختص کرکے اپنی ماؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ ارضِ ہند میں ایک صدی قبل اسے پہلی بار باقاعدہ طور پر منانے کا سہرا اینا جاروس نامی ایک خاتون کے سر جاتا ہے جن کا تعلق امریکہ سے تھا۔
٭٭٭