امریکہ میں ہر دو سال بعد مڈٹرم انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں صدر، نائب صدر، ون تھراڈسینٹ، فل کانگریس کے ہائوس نمائندگان، گورنروں، اٹارنی جنرلوں ججوں اور دوسرے ریاستی اور مقامی عہدیداران کا چنائو ہوتا ہے۔ امسال آٹھ نومبر کو پورے امریکہ میں پوری435ہائوس نمائندگان۔ 34سینٹروں۔ 34گورنروں اور باقی ریاستی اور مقامی عہدیداروں کا انتخاب ہوا جن کے درمیان سخت مقابلہ رہا جس کے نتائج ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہیں جس کا سب سے جواز ووٹروں کی میلنگ ووٹنگ ہے جس کو گننے میں دیر لگ رہی ہے۔ موجودہ نتائج کے مطابق ریپبلکن پارٹی کو کانگریس کے ایوان زیریں کے ہائوس نمائندگان میں اب تک پانچ پارلیمنٹرین کی اکثریت حاصل ہے۔ جو 435 میں 220 بلامقابل 215 ہیں۔ سینٹ میں ڈیموکریٹک کو50اور ریپبلکن49ممبر جیت پائی ہے۔ جبکہ جارجیا کی ایک سینٹ کی نشست ابھی ریاست کے قانون کے مطابق کسی بھی امیدوار کے پچاس فیصد ووٹنگ ناتھی جس کی وجہ سے اب چھ دسمبر کو دوبارہ انتخاب ہوگا۔ گورنروں میں ڈیموکریٹک23اور ریپبلکن25دوکا ابھی تک نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے چونکہ پچھلے چند سالوں سے انتخابات میں تبدیلی لائی گئی ہے جس میں ایک بہت بڑی ووٹرز کی تعداد میلنگ یا مقررہ تاریخ سے پہلے ووٹنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے سے نتائج آرہے ہیں۔ جس میں ریاستی الیکشن کمیشن ایک ایک ووٹ گن رہا ہے جس پر بہت زیادہ وقت لگ رہا ہے تاہم موجودہ الیکشن میں ایک بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ریپبلکن پارٹی کی اکثریت ووٹرز سفید فام، سخت گیر اور نسل پرست میں جو امریکہ میں آباد کاروں ایشن، لاطینو اور سیاہ فاموں کے خلاف ہیں جو بڑے جوش وخروش سے گھروں سے باہر نکل کر ووٹنگ کرتے ہیں۔ جبکہ ڈیمو کریٹک میں ایک بہت بڑی تعداد اقلیتوں کی ہے جو حسب عادت ابھی تک امریکہ کو اپنا ملک تصور نہیں کرتی ہیں۔جو ووٹ کی قدر سے ناواقف ہیں جن کی اس عادت سے ڈیموکریٹک کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کی مثال موجودہ مڈٹرم انتخابات میں کہ وہ ووٹرز جو ٹرمپ کے مدمقابل جوبائیڈن کی حمایت میں نکلے تھے جنہوں نے ٹرمپ کے 74ملین کے مقابلے میں81ملین ووٹنگ سے نوازہ تھا جس کی بنا پر جوبائیڈن صدر کا الیکشن جیت گئے تھے اسی طرح کانگریس میں بھی اکثریتی ووٹوں سے نوازہ تھا۔ جو اب نہ جانے کیا وجوہات ہیں کہ ڈیمو کریٹ کانگریس میں پانچ ووٹوں سے ہار چکی ہے۔ شاید موجودہ مہنگائی سے ووٹنگ بدلی ہے کے جس میں تیل سمیت باقی تمام اشیائے خورد اور استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ جو عام لوگوں پر ناگوارہ گزرا ہے جنہوں نے ووٹنگ میں دلچسپی نہیں لی ہے۔ یا پھر ریپبلکن امیدواروں کو ووٹ دیئے ہیں یا پھر جنگ مخالفین نے ووٹ دینے سے گریز کیا جو جوبائیڈن نے یوکرائن میں شروع کر رکھی ہے۔ جس سے امریکہ پر معاشی اور مالی بوجھ بڑھ رہا ہے جو موجودہ وقت میں کسی بھی لحاظ سے قابل ستائش نہیں ہے یہ جانتے ہوئے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے امریکی معیشت بری طرح متاثر ہوچکی ہے جس میں جنگ وجدل چھیڑنا عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے مگر جوبائیڈن نے افغانستان کے بعد یوکرائن کی سرد جنگ کا آغاز کردیا ہے جو نہ جانے کب تک جاری رہے گی۔ بہرحال امریکہ میں بھی پاکستان کی طرز پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے ریپبلکن موجودہ صدر کو تسلیم نہیں کرتے ہیں جنہوں نے چھ جنوری2020ء کو کانگریس پر حملہ کرنا تھا جس میں پارلیمنٹرین اور نائب صدر بال بال بچ گئے تھے جن کا آج وہ ماحول ہے جس کی حال ہی میں اسپیکر نینسی پلوسی شکار ہوچکی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور عمران خان کے اندر ہٹلری کی بدروح گھس چکی ہے۔ جو انسانیت کے خلاف خطرے کا باعث بن چکے ہیں۔ چند دنوں میں جھوٹ بولنے کی عادت زور پکڑ چکی ہے جس سے گمراہ طبقہ قتل وغارت گری پر اتر آیا ہے۔ دونوں کے عادات واطوار ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں دونوں فاشنرم کے حامی ہیں۔ دونوں کے پیروکار سخت گیر، بنیاد پرست، نفرتوں، حقارتوں اور شدت پسندی کے شکار ہیں۔ جو مخالفین پر حملے کر رہے ہیں۔ جو پارلیمنٹ عدلیہ اور انتظامیہ کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ اور پاکستان کی یہ دونوں قیادتیں اپنے اپنے ملکوں کے لیے وہاں بن چکی ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اگر ٹرمپ کے وقت امریکہ دنیا میں تنہا ہوگیا تھا تو عمران خان کے دور بربریت میں پاکستان بھی دنیا میں تنہا رہ گیا تھا جنہوں نے دنیا کی عظیم تحریکوں کو اپنی لانگ مارچ ،آزادی مارچ، انقلابی مارچ کو مذاق بنا دیا ہے جبکہ مجوزہ تحریکوں سے دنیا بھر بادشاہتوں، آمروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور نوآبادیاتوں کا خاتمہ ہوا تھا۔
٭٭٭٭