وفاقی حکومت نے ملک میں اسلامی بینکنگ نظام لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے: کہ سود سے متعلق شریعت کورٹ کے فیصلے کیخلاف اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی اپیلیں واپس لے رہے ہیں ،میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا: کہ کوشش ہے جتنا جلدی ہوسکے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کریں،معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی، گورنر اسٹیٹ بینک سے خصوصی مشاورت کی گئی، اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لیں گے، وفاقی شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سود سے پاک نظام کو تیزی سے آگے لے کر چلیں گے۔ سودی نظام کے بارے میں اسلامی احکامات واضح ہیں ،سود کا کاروبار کرنے ،سودی نظام میںمعاونت کرنے یا پھر سود کا حساب کتاب لکھنے والے کے بارے میں سخت وعیدیں موجود ہیں ،15 جولائی 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خطاب میں فرمایا:مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت میں اپنا فرض سرانجام دیں گے۔پاکستانی قوم میں سود کے خلاف ایک سوچ پائی جاتی ہے ،اب تو جدید میڈیا نے ہر خاص و عام کو اس سے آگاہ کر دیا ہے ۔ سودی نظام معیشت کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والے جماعت اسلامی سمیت 88 فریق تھے۔ وفاقی شریعت عدالت میں 30 جون1990 کو سودی نظام کے خاتمے سے متعلق پہلی درخواست دائر کی گئی تھی ،جس کے بعد1991 میں عدالت کے تین رکنی بینچ نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ سنایا تھا تاہم اس فیصلے کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور حکومت کو جون2000 تک فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا، بعد ازاں اس وقت کی جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر بھی نظر ثانی اپیل دائر کر دی گئی تھی، جس کے بعد24 جون2002 کو شریعت عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا گیا اور سود کی تشریح کے لیے مقدمہ واپس شریعت عدالت بھجوا دیا گیا تھا۔اس کے بعد 2002 سے2013 تک مقدمے کی سماعت نہ ہو سکی۔ اب پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل 2022 کو سود کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دے کر واضح کیا ہے کہ بنکوں کی جانب سے اصل رقم سے زائد رقم کی وصولی سودہے اور اسلام، آئین پاکستان اور قرآن و سنت کے خلاف ہے ،لہذا سود اور اس کے متعلق تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے، 31 دسمبر 2027 تک تمام قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔اس کے خلاف بھی کچھ بنکوں نے اپیل دائر کر دی تھی ،جسے موجودہ حکومت نے واپس لیکر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے ،آئین کے آرٹیکل 38(الف)کے مطابق بھی حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سود سے پاک نظام معیشت قائم کرے۔آئین کا یہ آرٹیکل 1973سے چلا آ رہا ہے لیکن کسی بھی حکموت یا ڈکٹیٹر نے اسے تبدیل نہیں کیا ،وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھاکہ حکومت اندرون اور بیرون ملک تمام قرضوں کو سود سے پاک نظام کے تحت لائے۔ وفاقی شریعت عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اسٹرٹیجک پلان کے مطابق تیس فیصد بنکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے ،اس بنا پر مزید 5برسوں میں ملکی بنکاری نظام کو سود سے پاک کیا جائے ۔یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ،کیونکہ اگر ہم دنیا میں موجود ایسے ممالک کا جائزہ ہیں جن کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،تو ان ممالک نے بھی سودی نظام کو چھوڑ رکھا ہے ۔ 2008 کی کساد بازاری کے بعد کئی ممالک نے شرح سود منفی کر دیا تھا ،اس پالیسی کو متعارف کروانے والا پہلا ملک ڈنمارک تھا۔ پھر جاپان، سوئٹزرلینڈ اور سویڈن نے اس طریقہ کار کو اپنایا۔جاپان نے اپنی شرح سود مائنس 0.1 فیصد رکھی ہے اور وہ اگلے چند برسوں تک اس میں تبدیلی لانے کے بارے میں غور بھی نہیں کر رہا ہے۔جاپان میں معاشی پالیسیوں کے لیے ذمہ دار ادارے کے سربراہ، بینک آف جاپان کے گورنر ہاروہیکو کوروڈا نے کہا تھا: کہ شرح سود کافی کم رہے گی،تاکہ معیشت کو وبا کے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ہم بھی جاپان ڈنمارک ،سوئٹزر لینڈاور سویڈن ماڈل اپنا کر سودی نظام سے نکل سکتے ہیں ۔لہٰذا سٹیٹ بنک کوان ممالک کے نظام بنکاری سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
٭٭٭