پاکستان میں پچھلے ایک سال سے عمران خان کا فوج مخالف بیانیہ چل رہا ہے کہ جس میں بعض لوگ گمراہ ہوگئے کہ عمران خان کا پہلا اور آخری شخص ہوگا۔ یہ جانتے ہوئے کہ عمران خان کی پیدائش، پرورش، تربیت اور حکمرانی جنرلوں کی بدولت ہوئی ہے جن کو باقاعدہ جنرل ضیا کے دور میں ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات کرکٹ ٹیم کا پاکستان بنایا گیا جبکہ وہ اس وقت کھیلنے کے قابل نہ تھے۔ بعدازاں ان کو جنرل گل حمید کے حوالے کیا جنہوں نے ان کو پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی جس میں بینظیر بھٹو شہید، اور عبدالستار مہدی کو قتل کرنا بھی شامل تھا۔ جس کا سلسلہ جنرل مشرف تک پہنچا جنہوں نے باقاعدہ دھاندلی برپا کرکے میانوالی کی ایک سیٹ دلوائی۔ پھر جنرل پاشا جنرل ظہیر السلام، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید تک ان کو ہر طرح کی مدد کی گئی لہذا ایسا شخص جن کو جنرلوں نے پالا پوشا ہو وہ ایک ضدی پلوٹھی کا بچہ تو ہوسکتا ہے۔ جو ایک زور دار تھپڑ پر خاموش ہو جائے لیکن اپنے قابضین کے خلاف طوفان برپا نہیں کرسکتا ہے۔ تاہم روزانہ کی بنیادوں کی خبروں کے مطابق میڈیا پر دن رات چرچا جاری ہے کہ عمران خان کی موجودہ جنرلوں سے ملاقات ہوگی یا نہیں۔ جس کے نامزد خلیفوں نے بار بار کہا ہے کہ عمران خان آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل انجم ندیم سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ مگر وہ مسلم لیگ نون اور پی پی پی کی قیادت سے نہیں ملیں گے یہ وہ سوال ہے جس کا جواب صرف یہی ہے کے عمران خان کل بھی جنرلوں کا لاڈلہ تھا آج بھی وقت آنے پر گود لیں گے۔ حالانکہ انہیں مسلم لیگ نون اور پی پی پی سے سبقت حاصل کرنا چاہئے کہ دونوں پارٹیوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے میثاق جمہوریت پر عمل کیا ہے جس کی وجہ سے دونوں پارٹیاں گاہے بگاہے مشکل وقت میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں اور حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔ چونکہ دونوں پارٹیوں کے کارکنوں اور رہنمائوں کی اسٹیبلشمنٹ نے جیلوں میں ٹھونسے رکھا۔ جو آج اسٹیبلشمنٹ کی تمام سازشوں سے واقف ہوچکی ہیں۔ یہی وہ وجوہات میں کہ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے عادی مخالف نوازشریف کو پہلے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا پھر پارٹی عہدے سے برخاست کیا آج ان کے دائیں بائیں حامی رہنمائوں، رانا ثناء اللہ، خواجہ رفیق، میاں لطیف جییس اسٹیبلشمنٹ مخالف لوگوں کو فروری2024کے الیکشن میں ہروا دیا ہے۔ جبکہ عمران خان کو صوبہ پختونخواہ میں90فیصد کامیابی دلوائی ہے جس میں وہ علاقے شامل ہیں یہاں عمران خان کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے۔ بہرکیف موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی صرف یہ ہے کہ یہ میرا ہے اور یہ تیرا ہے۔ جس کے لئے عمران خان کو باقاعدہ مستقل بچانے کے لئے پہلے جنرلوں نے عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کرایا۔ پھر انہیں پاپولر کرنے کے لئے اصلی مقدمات سجائے گھڑی چوری اور عدت میں مدت پوری نہ کرنے پر جیل میں دلوایا گیا۔ جن کو جیل میں وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جو دنیا بھر کے کسی قیدی کو نہیں ملتی ہیں جن پر روزانہ بارہ لاکھ روپیہ خرچ ہورہا ہے۔ جو جیل میں روزانہ بیس بیس وکیلوں، درجنوں ملاقاتیوں سے ملتے ہیں۔ جن کو غیر ملکی سفیر اور مشیر بھی مل رہے ہیں۔ جن کے میڈیا پر بیانات جاری ہوتے ہیں برعکس پاکستان میں سیاسی قیدیوں، بھٹو، ولی خان، شیخ مجیب، برنجو، مینگل، خیربخش مری افراسیاب خٹک، اجمال خٹک، معراج محمد خان، بینظیر بھٹو، نوازشریف، زرداری اور دوسرے سینکڑوں سیاسی رہنمائوں کو یہ سہولتیں نہ دی گئیں ہیں۔ جو آج عمران خان کو مل رہی ہے جس سے لگتا ہے کہ عمران خان موجودہ حکومت کا قیدی نہیں ہے کسی بڑی طاقت کا حمایت یافتہ شخص حفاظت میں ہے۔ جن کی حمایت میں برطانوی اور امریکی حکمرانوں اور ایوانوں میں ہو رہی ہے۔ کہ جس میں برطانوی ہندو وزرائ، وزیراعظم امریکی صدر ٹرمپ، اور سینیٹ کا چیئرمین چک شومرقابل ذکر ہیں۔ جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے۔ بہرحال عمران خان جو قیدی نہیں حفاظت میں ہے جن کی جنرلوں سے ملاقات ہوگی۔ یا نہیں ایک نوراکشتی ہے جو موجودہ سیاسی پارٹیوں کے لئے بلیک میل کارڈ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ کہ ہماری حمایت جاری رکھو ورنہ عمران خان کو چھوڑ دیا جائے گا۔ تاکہ ملک میں ریاست کے اندر ریاست کو چیلنج نہ کیا جائے۔ جو شاید اب نشانے پر آچکی ہے۔ جو ملکی زرعی، رہائشی معدنیاتی، تجارتی وسائل پر قابض ہے۔ جس کے لیے عمران خان کی جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کی نام نہاد مخالفت سے عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ جوکہ ایک دھوکہ ہے جس کے نتائج بہت جلد برآمد ہونگے۔ جب موجودہ پارلیمانی نظام حکومت کو ناکام بنا کر عمران خان کی شکل میں صدارتی نظام یا پھر فرسوویت پر مبنی خلافت اور سلطانیت قائم کیا جائے جس سے پاکستان ایک بار پھر ٹوٹ جائے گا جس کا ہیرو کل اے کے نیازی تھا آج آئی کے نیازی ہوگا۔ جو مسلسل پارلیمنٹ کے وجود کا مخالف چلا آرہا ہے چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭