جارج کی موت نے منظم نسلی امتیاز کو نمایاں کیا براک اوباما

0
200

واشنگٹن(پاکستان نیوز) امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ جارج فلائیڈ کی موت نے امریکہ میں منظم نسلی امتیاز کو نمایاں کیا ہے۔ پولیس کا نظام بدلنے کے لیے شہری انتظامیہ کے حکام کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ سماج سدھارنے کی تحریکیں ہمیشہ نوجوانوں نے چلائی ہیں اور وہی اس وقت سڑکوں پر ہیں۔ لیکن حالات بدلنے کے لیے انھیں سیاسی طور پر متحرک ہونا ہوگا۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار اپنی غیر نفع بخش تنظیم مائی برادرز کیپر الائنس کے ٹاو¿ن ہال میں ویڈیو لنک پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ یہ تنظیم انھوں نے اپنے دور صدارت میں نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوششیں تیز کرنے کے لیے قائم کی تھی۔ ٹاو¿ن ہال کا موضوع پولیس اصلاحات تھا۔ براک اوباما نے گفتگو کے آغاز میں جارج فلائیڈ اور پولیس حراست میں ہلاک دوسرے افراد کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا۔ انھوں نے کہا کہ جو بات انھیں پرامید بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس احتجاج میں بہت زیادہ نوجوان متحرک ہوئے ہیں۔ تاریخی طور پر امریکی معاشرے کی ترقی نوجوانوں کی مرہون منت رہی ہے۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ، میلکم ایکس، سیزر شاویز، حقوق نسواں کے رہنما، مزدور تحریکوں کے رہنما، ماحولیات کے لیے آواز اٹھانے والے رہنما، ہم جنس پرست رہنما، سب نوجوانی میں متحرک ہوئے۔ اوباما نے کہا کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ ملک بھر میں نوجوانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے تو مجھے مایوسی ہوتی ہے لیکن جب ان کا ردعمل دیکھتا ہوں تو امید جاگ جاتی ہے۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ ملک کے حالات بہتر ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح کا پولیس تشدد ہم نے دیکھا ہے، اسے روکنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ 19 ہزار سے زیادہ نیوز فلموں اور 18 ہزار سے زیادہ آبادیوں میں اصلاحات کی ضرورت واضح ہوئی ہے۔ اسی لیے ایکٹوسٹس اور عام لوگ آواز اٹھاتے ہیں۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ کیا تبدیلی آسکتی ہے اور ہم کیسے تبدیلی لاسکتے ہیں۔ براک اوباما نے کہا کہ یہ مئیر اور کاو¿نٹی کے حکام ہوتے ہیں جو پولیس کے سربراہوں کا تقرر اور محکمہ پولیس کے ساتھ گفت و شنید کرتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں پولیس مقامی آبادی کے ساتھ اچھا برا سلوک روا رکھتی ہے۔ یہ سرکاری وکلا طے کرتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں کے ناجائز اقدامات کی تحقیقات کی جائے یا نہیں۔ یہ سب لوگ الیکشن میں منتخب ہوتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here