ایک زمانہ تھا خواتین کبھی تنہا نہیں ہوتی تھیں۔ شادی سے پہلے ایک بھرا کنبہ ہوتا تھا والدین بہت سارے بہن بھائی اور بزرگ شادی کے بعد اور ابھی رشتے مل جاتے تھے۔ شوہر کے بہن بھائی والدین اور پھر اپنے بھی کافی بچے ہوتے تھے۔ اگر گھر کے مرد باہر کی دنیا میں مصروف بھی ہوتے تھے تو عورتوں کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا وہ اپنی چھوٹی سی خوبصورت دنیا میں مگن ومصروف ہوتی تھیں جب بچے جوان ہوتے تھے تو بہوئیں گھر میں آجاتی تھیں۔ داماد ،پوتا، پوتی ،نواسا ،نواسی، زندگی کو بے کیف نہیں ہونے دیتے تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ خاندان بڑھتا، میاں بیوی اسی میں مصروف ہوجاتے تھے۔ وہی ان کی سب سے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ وقت بدلا دوبچے خوشحال گھرانے کی باتیں ہونے لگیں۔ ہر گھر میں بڑے کنبے کی جگہ چھوٹی فیملی نے لے لی۔ اس کے ساتھ ہی باہر جانے کے راستے کھل گئے، زیادہ سے زیادہ نوجوانوں نے باہر کا رخ کیا کوئی سعودی عرب کوئی کینیڈا اور کوئی امریکہ پہنچا۔ پاکستان میں شادیاں کرکے بیوی کو بھی لے گئے۔ اب کنبے چھوٹے ہوگئے پردیس میں میاں بیوی اور ان کے بچے ہی ایک فیملی کے اندر رہ گئے۔ جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو یہیں خواتین بہت مصروف اور سرگرم عمل دکھائی دیتتی ہیں۔ نہ نوکر چاکر ہیں اور نہ ہی خاندان کے ایسے افراد جوکے مدد کرسکیں۔ جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کی زندگی کچھ رک سی جاتی ہے۔ زمانے کی بدلتی ہوتی رفتار نے سب سے زیادہ اثر خواتین کی زندگی پر ڈالا ہے۔ پاکستان اور دوسرے ممالک میں بچے بڑے ہوتے ہی باہر کے ملک جانے کی کوشش شروع کردیتے ہیں امریکہ میں سکول کالج ہی بے حد مصروف رکھتا ہے بچے نظر ہی نہیں آتے۔ اتنا ہی کافی نہیں نئی ٹیکنالوجی بھی آگئی۔ ہر طرح کے سیل فون انٹرنیٹ کمپیوٹر اور ٹی وی نے خاندانوں کو بے حد مصروف کردیا۔ بچے ہیں تو سکول کالج سے آتے ہی کمپیوٹر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں فارغ وقت میں دوستوں کو مسیج بھیجے جاتے ہیں فون پر لمبی باتیں کی جاتی ہیں۔ اب رہ گئے آدمی تو وہ بھی یا تو پیسہ کمانے میں بے حد مصروف ہیں یا پھر کمپیوٹر اور ٹی وی کی دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ نئے ملک میں اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں وہ ادبی اور سماجی تنظیموں میں اتنے کھوئے ہوئے ہیں کے ان کے پاس گھر کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ایسے میں ایک ماں یا گھر کی وہ خاتون جس نے زندگی بھر ان لوگوں کی خدمت کی۔ کچھ تنہا بھی ہوجاتی ہے اب اس کو زندگی کس طرح گزارنی ہے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ مختلف خواتین نے گھر کے مصروف ماحول میں اپنے کو الگ تھلگ جانا جس سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئیں۔ تنہائی انہیں اداس اور پریشان کر گئی۔ کچھ نے باہر کی دنیا میں پناہ لی مسجدیں درس اور سہیلیوں کی محفل میں وہ اکیلے ہی چلی جاتی ہیں۔ کچھ خواتین دن بھر ٹی وی کے ڈراموں سے دل بہلاتی ہیں کچھ نے گھبرا کر نوکری کرلی۔ ہم کسی بھی مصروفیت کو اپنائیں اگر یہ راہ فرار ہے تو ہم اپنے اندر تشنگی پائیں گے۔ لیکن اگر یہیں مصروفیت ایک بھرے پرے محبت کرنے والے خاندان کی عورت اپنائے کی تو وہ دل سے خوش ہوگی اس کے اندر تشنگی نہیں ہوگی۔
اب یہ گھر کے سربراہ اس کے شوہر کا بزنس بنتا ہے کے وہ اسے تنہائی اور تشنگی سے بچائے۔ اپنے بچوں کو وقت کی قدر کرنا سکھائے ہمہ وقت ٹی وی سیل خون اور کمپیوٹر ماں باپ سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ ان کے لیے وق مقرر ہونا چاہئے کچھ وقت ماں کا بھی ہے وہ ماں جس نے ان کی زندگی بناتے ہوئے اپنی ترقی کا راہیں بند کردی تھیں۔ وہ ماں جس نے انہیں بہت وقت دیا شوہر کو بھی اپنی مصروفیت میں سے اتنا وقت ضرور نکالنا چاہئے کے وہ کچھ وقت اپنی بیوی کو دے سکے۔ اگر آپ ایک دوسرے کے ساتھ وقت نہ گزاریں تو کڑواہٹ زندگی میں آجاتی ہے۔
آج کل کے دور میں عورت کو اگر سہارا محبت اور وقت نہ ملے تو وہ بے حد اکیلی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر زندگی گزارنے کی عادت نہ ڈالیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑ کر لوگ ناراض ہوکر ایک دوسرے کے بغیر جینا سیکھ لیتے ہیں جب کے حضرت علی کا قول ہے کسی سے اپنی ناراضگی اتنی طویل نہ کرو کے وہ تمہارے بغیر بھی جینا سیکھ لے۔
٭٭٭