بنگلہ دیش دنیا کا ایک ایسا بدنصیب ملک ہے جہاں حادثات کا گرداب ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے، گذشتہ پیر یعنی 15 اگست کے دِن جو کہ بنگا بندھو کی وفات کا بھی دِن تھا صرف ڈھاکا شہر میں درجنوں افراد مختلف حادثات میں لقمہ اجل بن گئے ، سب سے پہلا حادثہ ایک کنسٹرکشن پروجیکٹ پر وقوع پذیر ہوا جس میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کچل کرموت کی آغوش میں سوگئے ،یہ سانحہ ہر کس و ناکس کے دلوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے، حادثے کی ذمہ داری ایک ادارے کے سربراہ نے دوسرے ادارے کے سربراہ پر عائد کی ہے ، حتی کہ چینی انجینئر ز بھی اِس سے مستثنی نہ رہ سکے لیکن بعد ازاں اُن پر الزامات کی فہرست حکام اعلی کی ہدایت پر پراسرار طور پر غائب ہوگئی۔ حادثے کی تفصیلات یوں بتائی جاتی ہے کہ اُتر ڈھاکا میں جسیم الدین روڈ کے انٹرسیکشن پر فلائی اوور جو ڈھاکا اور غازی پور کے 13 میل کے فاصلے کو ملانے کیلئے تعمیر کیا جارہا تھا، اِس پر ایک کرین بھاری بھرکم کنکریٹ کے ملبے کو لیکر جارہا تھا۔ کرین اُس ملبے کے بوجھ کو براشت نہ کرسکا اور وہ ایک گاڑی کی چھت پر جا گرا جس سے گاڑی میں سوار پانچ افراد جن میں دوبچے بھی شامل تھے کچل کر ہلاک ہوگئے، سب سے پہلے جو خامیاں منظر عام پر آئیں اُن میں یہ تھیں کہ کرین کے آپریٹر کے پاس جو لائسنس تھا وہ محض چھوٹے کرین کو چلانے کیلئے مخصوص تھا جبکہ وہ موقع واردات پر ایک انتہائی وزنی اور بڑے ساخت کے کرین کو آپریٹ کررہا تھاجس کیلئے اُس کے پاس تجربے کا بھی فقدان تھا.مزید برآں ایک اتنے اہم اور خطرناک آپریشن کے دوران ضرورت اِس بات کی تھی کہ ٹریفک مکملا”بند کر دی جاتی ، لیکن کنسٹرکشن کمپنی کے حکام کیوں نہیں ایسا کیا یہ سوال تمام متعلقہ لوگوں کے ذہن کو پریشان کر رہا ہے. ایک حادثہ جسے با آسانی روکا جاسکتا تھا محض حکام کی غفلت کی وجہ کر رونما ہوگیا. ڈھاکا شہر میں اِس طرح کا حادثہ پہلی مرتبہ رونما نہیں ہوا ہے ، بلکہ گذشتہ سال مارچ کے ماہ میں ٹھیک اُسی طرح ایک ملبہ کرین سے گر گیا تھا جس میں پانچ کنسٹرکشن ورکر بشمول تین چائینیز انجینئرز بھی شامل تھے شدید زخمی ہوگئے تھے. مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ ابتدائی الزامات در الزامات کے بعد اچانک تمام الزامات یکسر غائب ہوگئے ہیں اور مزید کوئی کسی پر کوئی الزام عائد نہیں کر رہا ہے. مطلب یہ ہے کہ تمام فریقین کے مابین سمجھوتہ ہوگیا ہے کہ تم ہمارے الزامات کی پردہ پوشی کرو اور ہم تمہارے، محض دکھاوے کیلئے روڈ ٹرانسپورٹ کے سیکرٹری نے پروجیکٹ کے چیف انجینئر کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ پروجیکٹ کے آفیسرز کو شو کاز نوٹس کا اجرا کریں۔ لیکن ابھی کرین کے حادثے پر افسوس کا اظہار جاری تھا کہ ٹھیک اُسی دِن ڈھاکا کے مشہور چوک بازار کے ایک ہوٹل میں آگ بھڑک اُٹھی،یہ آگ پڑوس کی ایک پلاسٹک فیکٹری کو بھی زد میں لے لی تاہم ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سب کے سب ریسٹورنٹ کے ملازمین تھے جو نائٹ ڈیوٹی کرکے سورہے تھے،2019ء میں اِسی چوک بازار میں ایک کیمیکل فیکٹری کی آگ نے 67 افراد کی زندگیوں کو چھین لیا تھا،پلاسٹک فیکٹری میں آتشزدگی کی واردات ڈھاکا کا ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اِس سے قبل متواتر آگ لگنے کی واردات اِسی سال کے مارچ 18 ،اُسکے بعد اپریل 15 اور مئی 30کو ظہور پذیر ہوئی تھی، یہ تو صرف پلاسٹک فیکٹری میں آگ کی واردات کی فہرست ہے ، اِسکے علاوہ غازی پور میں گارمنٹ فیکٹری اور نرائن گنج میں پرنٹنگ اور پیکجنگ فیکٹری کی آگ اِس بات کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ بنگلہ دیش کی فیکٹریوں میں آگ سے بچاؤ یا ورکروں کے تحفظ کیلئے کوئی قانون موجود نہیں ہے اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی زندگیاں منافع کی ہوس کرنے والے مالکان کی مرہون منت ہیں.ڈھاکا کے گنجان علاقوں میں جہاں فائر انجنوں کا پہنچنا بھی دشوار ہوتا ہے وہاں فیکٹریوں کے قائم کرنے پر پابندیاں عائد ہیں اُسکے باوجود بھی وہاں خطرناک اجزا کی فیکٹریاں موجود ہیںجن میں پلاسٹک، کیمکلز اور گارمنٹ کی فیکٹریاں شامل ہیں. سال 2017 ء میں ڈھاکا سٹی کارپوریشن نے اُن پر سخت جرمانہ عائد کیا تھا اور اُنہیں گنجان آبادی سے فوری طور پر منتقل ہونے کا حکم صادر کیا تھالیکن سیاسی تعلقات اور رشوت کے کلچر کی وجہ اُس حکم کی کوئی تعمیل نہ ہوسکی. وزیراعظم شیخ حسینہ خود ڈھاکا میں رہتی ہیں اور اُنہیںگنجان آبادی کے مسائل کا اچھی طرح علم ہے لیکن اُن کی ترجیحات انسداد آتشزدگی سے زیادہ ملک کی معشیت پر ہے. بنگلہ دیش کے ٹاکا کی قیمت کا تیزی سے روبہ زوال ہونا، تیل اور اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا اُن کے حواس کو اُڑا کر رکھ دیا ہے۔
بنگلہ دیش ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں ذرائع آمدو رفت کیلئے دریاؤں کا نیٹ ورک موجود ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں کے ایک شہر سے دوسرے شہر کشتی یا بوٹ کے ذریعہ بھی جاسکتے ہیں.تاہم اِس ضمن میں بھی کوتاہی کی وجہ کر ہزاروں افراد وہاں ڈوب کر ہلاک ہوجاتے ہیں ، خصوصی طور پر عورتیں اور بچے اِس ضمن میں پیش پیش ہوتے ہیں. کشتیاں وہاں تجارتی اسباب مثلا” چاول ، گندم ، دالیں، مصالحہ جات ، جانورکے آمد و رفت کیلئے بھی استعمال ہوتی ہیں. یہ کشتیاں موٹر کے بجائے افراد کھیتے ہیں. جتنی بڑی کشتیاں ہوتی اتنے ہی زیادہ لوگ اِس کام پر مامور ہوتے ہیں. بعض کشتی پر چھ چھ افراد کشتی کھینے کا کام کرتے ہیںلیکن افسوس صد افسوس کا مقام ہے کہ اُنکے تحفظ اور فلاح و بہبود کیلئے کوئی قانون موجود نہیں۔