جب میں ایک پروموٹر کی حیثیت سے ملا تھا لیکن جب واپس گیا تو ایک بھائی بنا کر گیا، یہ رشتہ اس وقت اور مضبوط ہوا جب کووڈ آیا جس میں کچھ پتہ ہیں تھا کیسے مدد کی جاتی ہے۔ جس طرح راجندر بھائی نے اس وقت مدد کی میں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تقریباً 100 لوگوں کی جانیں انہوں نے بچائی تھیں۔ اور ہماری ملاقات ایک ذریعہ تھا کہ اوپر والے نے ہمیں ملایا تاکہ ہم لوگوں خی جانیں بچا سکیں یہ تھے وہ الفاظ جن کی وجہ سے میں یہ کالم لکھنے بیٹھ گیا کہ ہم ہیوسٹن میں بڑے بڑے شوز کرتے ہیں بڑے بڑے آرٹسٹوں کو بلاتے ہیں اور لوگوں کو تفریح فراہم کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو نہیں بلاتی جو انسانیت کی خدمت کرتے اور کسی نہ کسی شعبے میں وہ اپنا نام پیدا کرتے ہیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی 30 سالہ ہیوسٹن میں ایسا شو نہیں دیکھا جب راجندر جو اسٹار پروموشن کے روح رواں ہیں اور ہیوسٹن میں شوبز میں ایک بڑا نام ہے مجھے فون کیا حالات چاہے کچھ بھی ہوں راجندر نے جب بھی کوئی پروگرام کیا مجھے ہمیشہ یاد رکھا ہے اور ہماری محبت ہمیشہ سے قائم ہے یہ بتایا کہ میں نے ایک پروگرام رکھا ہے سونو صود کیساتھ میں نے جب یہ سنام سنا تو میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ سونو صود کے پروگرام میں ضرور جائوں گا کیونکہ کووڈ کے دوران جس طرح سونو صود نے ایک فلمسٹار ہوتے ہوئے جس طرح اپنے لوگوں کی خدمت کی اور لوگوں کی جانیں بچائیں اس نے پورے ہندوستان میں جو نام کمایا ہے وہ اس کو فلم انڈسٹری نے بھی نہیں دیا۔ جو کام اس ے کیا وہ بڑے بڑے آرٹسٹوں نے نہیں کیا کیونکہ یہ کام ہر کوئی نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ جس سے چاہے یہ کام لیتا ہے وہی چاہتاہے کہ کوئی میری مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ عبادت اپنی جگہ ہے لیکن انسانیت کی خدمت کرنا ہی سب سے بڑا کام ہے تقریب کے دوران سونو صود نے اپنی زندگی کے ان واقعات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح انہوں نے یہ کام شروع کیا اور ان کے دل میں یہ بات کیسے آئی ان کے والد کا کاروبار کپڑے کا تھا وہاں سے انہوں نے سیکھا وہاں لنگر تقسیم ہوتا تھا اور ان لوگوں کے چہروں پر جو مسکراہٹ اور خوشی دیکھتا تھا تو دل میں یہی خیال آتا تھا کہ یہ کام ہے انسانیت کی خدمت کرنا۔ راجندر نے بھی بتایا کہ جب کووڈ کے دوران میں انڈیا میں تھا تو وہاں پر آکسیجن سلنڈروں کی بہت قلت تھی میں نیس ونو بھائی کو فون کیا تو انہوں نے جس طرح مجھے آکسیجن سیلنڈر بھجوائے جس سے لوگوں کی جانیں بچائی گئیں۔ سونو نے کہا کہ میں اٹھارہ سالوں سے فلم انڈسٹری میں کام کر رہا ہوں لیکن یہ جو دو سال میں نے کووڈ میں لوگوں کی مدد کی وہ میری زندگی کے بہترین سال ہیں اور مجھے ان دو سالوں پر بے حد فخر ہے اور میں ہر روز یہی دعا کرتا ہوں کہ میرا یہ کام چلتا رہے کیونکہ یہ ایکشن ہے نہ یہاں کیمرہ ہے نہ لائٹس ہیں کام ہے جب کووڈ شروع ہوا تو مجھ سے میرے دوست نے کہا کہ پڑوس کے علاقے میں 500 لوگ ہیں جن کو کھانا پہنچانا ہے میں نے انتظام کروایا اور ان کو کھانا پہنچا دیا میں سمجھ رہا تھا کہ میرا کام ختم ہو گیا۔ ہمارے ہاں ایک کڑوا چوک ہے میں نے وہاں دیکھا کہ لوگ لمبی قطار میں پیدل جا رہے ہیں ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے گھروں کو نقل مقانی کر رہے ہیں ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے میں نے ان لوگوں کو فروٹ بانٹے اور ایک فیملی کہنے لگی کہ ہمیں دس دن کا فروٹ دے دیں تاکہ ہم کھاتے ہوئے اپنے گھر پہنچ جائیں۔ 450 لوگوں کیلئے بس کا انتظام کیا لیکن ڈرائیوروں نے منع کر دیا کہ ہم کووڈ کے مریضوں کو لے کر ہیں جائینگے پھر بھی ان کو راضی کیا اور دس بسوں میں ان کو روانہ کیا تو ان کی آنکھوں میں جو خُوشی کے آنسو تھے وہ میری ساری کائنات تھی جب وہ اپنے گھروں کو پہنچے تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کام ہو سکتاہے جب لوگوں کو اس کا علم ہوا تو پورے ہندوستان میں ایک ہنگام ہوگیا اور مجھے بسوں کی بجائے ٹرینوں کا سہارا لینا پڑا اور کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تقریباً ساڑھے سات لاکھ لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچایا۔ بچوں کی تعلیم کیلئے میں نے ایک موبائل فون کمپنی سے بات کی کہ مجھے میری فیس نہ دو مجھے موبائل فون دے دو تاکہ بچے گھر سے تعلیم حاصل کر لیں مجھے 8 ہزار فون مل گئے اور میں نے وہ تقسیم کر دیئے۔ جتنی عزت اس کام کرنے سے ملتی ہے کسی اور کام سے نہیں ملتی چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ ضرور اس کام کیلئے نکالیں دوسروں کی مدد کرنے کیلئے ایک فیکٹری میں 176 لڑکیاں پھنس گئیں مالک فیکٹری بند کر کے بھاگ گیا۔ ان کو کس طرح وہاں سے نکلوایا بسوں میں نہیں جا سکتی تھیں ایئرپورٹ کو دو گھنٹے کیلئے کھلوایا اور ان کو وہاں سے نکلوایا اس اکے بعد انٹرنیشنل طلباء جو بیرون ملک میں پھنسے ہوئے تھے تقریباً 35 ہزار طلباء کو ہندوستان لے کر آئے اب ہماری این جی او جو ”ہوپ” کے نام سے کام کر رہی ہے پوری دنیا میں مشہور ہو گئی ہے کیونکہ میں نے دعائوں کی لگام پکڑ رکھی ہے اور کامیابی میرے قدم چُوم رہی ہے جو لوگوں کی دعائیں کام کرتی ہیں ان کا کوئی بدل نہیں ہے۔ میں مبارکباد دیتا ہوں راجندر پال کو جنہوں نے ہیوسٹن کے لوگوں کو ایک ا یسے انسانیت کے علمبردار کو متعارف کرایا اور ایسے ہی لوگوں کے پروگرام کرنے چاہئیں تاکہ انسانیت کو فروغ ملے۔
٭٭٭