روسی ارب پتی افراد پراسرار طور پر اچانک مرنے لگے ،7ہلاکتیں ریکارڈ

0
73

ماسکو (پاکستان نیوز ) کیا تیل اور گیس کے کاروبار سے منسلک سات روسی ارب پتی شہریوں کی یکے بعد دیگرے حالیہ اموات محض ایک اتفاق ہے یہ سبھی کاروباری شخصیات روسی حکمرانوں کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کے باعث کاروباری غلبے کی حامل بنی تھیں۔صرف تین ماہ کے عرصے میں روس کے انتہائی امیر کبیر سات شہریوں کی باری باری لیکن پراسرار اموات نے کئی قیاس آرائیوں کے دروازے بھی کھول دیئے۔ مختلف میڈیا اداروں کے مطابق ان اموات کو خود کشی کا رنگ دینے کی دانستہ کوششیں کی گئیں۔ ذرائع ابلاغ کے ایک حصہ تو اپنی قیاس آرائیوں میں اس حد تک چلا گیا کہ اس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن یا ان کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کو کسی نا کسی طرح ان اموات کا ذمہ دار بھی ٹھہرا دیا۔ہلاک شدگان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا، جسے یوکرین کی جنگ کے باعث روس اور روسی امرائ پر لگائی گئی مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔سپین کے علاقے کاتالونیا کی پولیس کو تیل اور گیس کے ایک بااثر روسی تاجر کے بیٹے فیدور پروٹوسینیا کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ فیدور کا اس علاقے میں ایک وسیع و عریض خاندانی گھر ہے۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ فرانس میں موجود تھا اور کئی گھنٹوں سے کاتالونیا میں اپنی والدہ سے فون پر رابطے کی کوشش میں تھا مگر اسے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔ روس کا کنٹرول کرپٹ افسران، اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اطلاع پا کر جب ہسپانوی پولیس اس کے والدین کے گھر پہنچی تو حکام نے وہاں فیدور کے والدین اور ایک بہن کو مردہ پایا۔ ابتدائی طور پر پولیس نے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ فیدور کے ارب پتی والد سیرگئی پروٹوسینیا نے اپنی بیوی اور بیٹی کو چھری کے وار کر کے قتل کرنے کے بعد خود کو گھر کے باغیچے میں ایک پھندے سے لٹکا کر خود کشی کر لی تھی تاہم پھر جلد ہی پولیس کے اس مفروضے کے بارے میں کئی ابہام سر اٹھانے لگے۔اس واقعے سے ایک روز قبل تین ہزار کلومیٹر دور روسی دارالحکومت ماسکو کی پولیس کے لیے بھی ایک بھیانک انکشاف ہوا تھا۔ وہاں ایک اور روسی ارب پتی تاجر ولادسلاوآواڑیو اپنی اہلیہ اور تیرہ سالہ بیٹی کے ہمرا ہ اپنے پر تعیش گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔ روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق آواڑیو کی لاش کے ایک ہاتھ میں ایک پستول تھا۔ روسی حکام کو شبہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹی کو قتل کرنے کے بعد اپنی جان بھی لے لی تھی۔قتل کی یہ دونوں وارداتیں چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پیش آئیں اور ان دونوں میں واضح مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ مرنے والے دونوں روسی امرا ء کا تعلق ملک میں تیل اور گیس کی تجارت کرنے والے سرکردہ ترین تاجروں کے چھوٹے سے طبقے سے تھا۔ پروٹوسینیا قدرتی گیس کی سرکاری کمپنی نوواٹیک کے ڈپٹی چیئرمین رہ چکے تھے جبکہ آواڑیو روس کے سرکاری گیسپروم بینک کے نائب صدر کے طور پر فرائض انجام دے چکے تھے۔ یہ دونوں ہلاکتیں اسی سال تیل و گیس کے شعبے سے جڑی امیر ترین روسی شخصیات کی پراسرار اموات کے سلسلے ہی کی تازہ کڑی ہیں۔اس سال جنوری کے اواخر میں، روس کے یوکرین پر فوجی حملے سے تقریبا ایک ماہ قبل، گیسپروم کے ایک اعلیٰ سطحی منتظم اور ساٹھ سالہ روسی شہری لیونڈ شولمین نے بھی مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔ اسی طرح پچیس فروری کو گیسپروم ہی کے ایک سابق مینیجر آلیکسانڈر ٹیولیاکوف بھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اپنے گھر پر ایک پھندے پر جھولتے پائے گئے تھے۔انہوں نے بھی بظاہر خود کشی کر لی تھی۔ اس واقعے کے ٹھیک تین دن بعد یوکرین میں پیدا ہونے والے گیس اور تیل کے ایک اور انتہائی امیر روسی تاجر میخائل واٹفورڈ کی لاش بھی جنوبی برطانیہ کے علاقے سرے میں ان کے گھر کے گیراج میں رسی سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔چوبیس مارچ کو طبی ساز و سامان فراہم کرنے والی دیو ہیکل روسی کمپنی میڈسٹوم’ کے ارب پتی سربراہ واسیلی میلنیکوف اپنی بیوی گالینا اور دو بیٹوں کے ہمراہ روسی شہر نینڑنی نووگورود میں اپنے کئی ملین ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ میں مردہ پائے گئے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here