پاکستان میں آئینی و انتظامی بحران سنگین ،نومبر میں الیکشن متوقع

0
114

اسلام آباد (پاکستان نیوز) ملک میں آئینی ، انتظامی اور معاشی بحران سنگین ہو گیا ہے جبکہ حکومتی وزرا کی جانب سے اکتوبر یا نومبر میں الیکشن کا عندیہ بھی دیا گیا ہے ،صدر مملکت ، وزیراعظم کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں جبکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گورنر اور وزیراعلیٰ کی محا ز آرائی نے سیاسی گرما گرمی کو بڑھا دیا ہے ، ڈپٹی سپیکر پنجاب دوست مزاری اپنے ہی سٹاف کی شکایات لگانے پر مجبور ہے کہ اس کے احکامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے ،ملک میں عجیب انتظامی افرا تفری ہے جبکہ حکومت ملکی مسائل کو حل کرنے کی بجائے الیکشن کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کرر ہی ہے تاکہ انتخابات کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، اس سلسلے میں حکومتی اتحادی،پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے بتایا کہ نوا زشریف سے مشاورت ہوئی ہے الیکشن سے قبل انتخابی اور نیب اصلاحات ہمارے گیم پلان کا حصہ ہے، کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے انتخابی اصلاحات کرنی ہیں، جس کی بدولت معاشی صورتحال اس نہج پر پہنچی ہے، جیسے ہی ہماری انتخابی اصلاحات اورآسان اہداف مکمل ہوتے ہیں تو ہم الیکشن کال کر دیں گے۔انھوں نے کہا کہ چاہے جو بھی پوسٹنگ ہو یا چیف ہو اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے، آپ قانون میں تبدیلیاں کر لیں، آپ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ سے متعلق فیصلہ لے لیں تو پھر ہم الیکشن کروا لیں گے اور مجھے قانون تو بنانے دو جس پر سارا جھگڑا ہے جس کی بدولت سیلیکٹڈ آتے ہیں تو پہلے انتخابی اصلاحات ہوں گی، چاہے تین ماہ لگیں، یا چار ماہ میں۔ اس وقت ہمیں معیشت کے حوالے سے آؤٹ آف دی باکس حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ نے کہا کہ باجوہ نیوٹرل ہو گیا ہے تو سیلوٹ کرنے کا دل کرتا ہے، آپ نے کہا کہ فیض حمید نے پی ٹی آئی کی حکومت بنائی، اس کو بھی سیلوٹ کرنے کا دل کرتا ہے؟ اس پر آصف زرداری نے جواب دیا کہ ‘فیض حمید بیچارہ تو کھڈے لائن ہے۔وزیراعظم شہباز شریف اس وقت مسلم لیگ ن کے اجلاس میں شرکت کے لیے لندن میں موجود ہیں ، جہاں الیکشن کی تاریخوں، ممکنہ اصلاحات اور دیگر معاملات زیر غور آئیں گے ۔ لندن میں وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں کی جماعت کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملک کو معاشی، آئینی بحرانوں سے نکالنے کے لیے حتمی فیصلوں کا اعلان جلد ہو گا۔ مسلم لیگ ن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کردہ بیان کے مطابق ان تمام فیصلوں کا اعلان اتحادی جماعتوں کی تائید و حمایت سے کیا جائے گا۔مریم اورنگزیب کے مطابق نوازشریف کی زیرصدارت پارٹی قیادت کے اہم مشاورتی اجلاس کی پہلی نشست بدھ کو ہوئی جس میں موجودہ حکومت کو ورثے میں ملنے والے سنگین معاشی، آئینی اور انتظامی بحرانوں پر نواز شریف کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی زیرصدارت حتمی فیصلوں کے لیے جمعرات کو پھر اجلاس ہو گا جس میں ملک اور عوام کو بحران سے نکالنے کے لیے حکمت عملی کی منظوری دی جائے گی،بیان کے مطابق بدھ کو ہونے والے اجلاس میں اتفاق رائے پایا گیا کہ آئین شکن عناصر سے آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے گا اورایسے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے مختلف تجاویز پر مشاورت بھی ہوئی۔دریں اثنا صوابی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘اگلے الیکشن میں خیبرپختونخوا کی بھی عمران سے جان چھوٹنی چاہئے۔ عمران خان چار سال حکومت کرنے کے بعد چار سیکنڈ بھی کارکردگی نہیں بتا سکتا،پی ٹی آئی حکومت نے ملک میں جتنے مسائل پیدا کیے انھیں حل کرنے میں دو سے تین ماہ نہیں بلکہ دو سے تین سال لگیں گے ،ن لیگ اور اپوزیشن جماعتوں کو عوام کو گواہ بنا کر یہ کہنا چاہتی ہوں کہ عمران خان کی بدبودار اور بری کارکردگی کا ٹوکرا اپنے سر پر اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔عمران خان کو جانے دو عوام میں تاکہ عوام سوال پوچھے کہ ملک کا یہ حال کیوں کیا۔مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کبھی فوج، کبھی عدلیہ کے خلاف باتیں کرتا ہے، کہتا ہے یہ میر جعفر اور میر صادق ہیں، کرسی کھسک گئی تو تمھیں میر جعفر، میر صادق نظر آ گئے۔انھوں نے کہا کہ ‘عمران خان کی شکایت یہ ہے جنپوں نے پہلے سر پر بٹھایا اب ساتھ دینے کو تیار نہیں، تمھاری غلاظت کا ٹوکرا افواج پاکستان کیوں اٹھائے۔دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ رواں برس پاکستان کی بری فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی سے قبل ہی ملک میں عام انتخابات کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اْن کا کہنا تھا ہو سکتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے ہم الیکشن ہی کروا دیں۔ نومبر سے پہلے۔ تب نگران حکومت ہو گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے نومبر سے پہلے نگران حکومت چلی جائے اور نئی حکومت آ جائے۔ اس سوال پر کہ نگران حکومت سے پہلے کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دی جا سکتی ہے، وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ خود ہی اعلان کر چکے ہیں کہ انھیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ میں اس اعلان کو خوش آئند سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے قیاس آرائیوں کے دروازے بند ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل راحیل شریف نے بھی کبھی مدت ملازمت میں توسیع کا براہ راست یا بالواسطہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا تھا ملک میں فوجی سربراہ کی تعیناتی کا طریقہ کار اب ‘انسٹی ٹیوشنلائز’ ہونا چاہیے جیسا کہ عدلیہ میں ہوتا ہے۔ ان کا اس بارے میں مزید کہنا تھا کہ ‘یہ عمل انسٹی ٹیوشنلائز کرنا چاہیے جیسے عدلیہ میں ہوتا ہے اور اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں ہوتی۔ مجھے پتا ہے کہ 2028 میں کس نے چیف جسٹس بننا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے کو زیر بحث لانے کی بجائے طریقہ کار سو فیصد میرٹ پر ہو۔ یہ ایک بڑا اور انتہائی اہم معاملہ ہے، اس کو سیاسی بحث کا موضوع ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔وفاقی وزیر دفاع نے انٹرویو کے دوران اس تاثر پر بھی بات کی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہی وہ بنیادی معاملہ تھا جو عمران خان کی حکومت کی تبدیلی کی وجہ بنا۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگلے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر عمران خان اپنی ذاتی مرضی کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسا ہو کہ ان کے سیاسی مفادات اور حکمرانی کے تسلسل کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ‘اگر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سینیارٹی لسٹ میں ہوا تو بالکل غور کیا جائے گا۔ ان سب ناموں پر غور ہو گا جو کہ اس فہرست میں موجود ہوں گے ،تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سابق وزیر اعظم عمران کی مقبولیت میں اضافے اور مسلم لیگ ن کی جانب سے عوامی سطح پر ان کا مقابلہ کرنے میں مشکلات پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیانیے کی اس جنگ میں ان کی جماعت کی شکست کا کوئی امکان نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ زیادہ دیر نہیں لگے گی اور صورتحال مستحکم ہو جائے گی، خواجہ آصف کے مطابق وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان ایک ‘مقبول عوامی لیڈر’ ہیں مگر ان کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کچھ موجود نہیں۔انھوں نے کہا کہ ‘اسی لیے وہ ان دو تین بیانیوں کے پیچھے اپنی ناکامی چھپا رہے ہیں جو بدقسمتی سے عوام میں مشہور ہو جاتے ہیں۔ وہ بیک وقت مذہب کی وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور اس کے ساتھ امریکہ مخالف بیانیہ بھی دہرا رہے ہیں۔’وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز اب علاقائی ممالک ہونے چاہیں اور انڈیا کے علاوہ دیگر تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنی چاہیے۔انھوں نے کہا روس اور یوکرین کی جنگ کے معاملے پر پاکستان کا موقف واضح ہے اور حکومت کی تبدیلی سے اس موقف میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔میرا موقف ہے کہ جس طرح یورپ یوکرین کے ساتھ ہے، ایسے ہی فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔افغانستان کے فوجی اڈوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ ایسا کوئی مطالبہ ابھی میز پر نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان ایسا مطالبہ قبول کرے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here