اسلام آباد (پاکستان نیوز) پاکستان میں رواں برس الیکشن کا انعقاد کھٹائی میں پڑ گیا ہے ، سیاسی جماعتوں کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں پر تحفظات کے بعد نئی مردم شماری اور نئے سرے سے حلقہ بندیوں کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے جس کے لیے ایک سال سے زائد عرصہ درکار ہوتا ہے ، وزیراعظم شہبا زشریف کے بیان کہ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن نہیں ہوں گے نے الیکشن کے طویل التوا کی بازگشت سنا دی ہے ، وزیراعظم شہباز شریف نے کہہ دیا ہے کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن نہ ساٹھ دن کے اندر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی نوے دن کے اندر۔ انتخابات کا وقت پر ہونا پہلے ہی مشکوک تھا لیکن اب تو یقین ہو چلا ہے کہ انتخابات کم از کم اس سال تو نہیں ہونے والے۔ نگراں حکومت تو دس پندرہ دن تک آ جائے گی لیکن کتنا عرصہ چلے گی، اس بارے میں کسی کو کوئی کچھ پتا نہیں۔ اب تو یہ بھی باتیں کی جا رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے نگراں سیٹ اپ دو سال تک چلے۔ اس بارے میں تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی پر بیٹھنے والے راجہ ریاض نے بھی ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں بات کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے جب پوچھا گیا کہ کیا نئی مردم شماری کی بنیادپر انتخابات کرانے کی وجہ سے انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے ،اس پر اْنہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ تو الیکشن کمیشن کرے گا۔ وزیرِ قانون نے کچھ دن پہلے اس معاملے پر بات کرتے ہوے کہا کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے سے الیکشن کوئی چھ آٹھ ہفتہ تک ہی آگے جائیں گے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کروانے کے فیصلے پر نئی حلقہ بندیاں کرنا لازم ہوگا جو کوئی چار پانچ ماہ کا پراسس ہے لیکن یہاں تو مردم شماری کے متعلق نئے نئے جھگڑے جنم لے رہے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر صوبے 2023کی ڈیجیٹل مردم شماری سے مطمئن نہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں بشمول ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا تو یہ مطالبہ بھی سامنے ا?چکا کہ پہلے درست مردم شماری کریں اور پھر اْس کی بنیاد پر الیکشن کروائیں۔مردم شماری کرنے والے ادارے (پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹک) کی طرف سے تو 2023 کی مردم شماری مکمل ہو چکی ، اس کا آڈٹ بھی ہوچکا اور اب تو اس معاملہ کو مشترکہ مفادات کونسل (Council of Common Interest) کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرنا ہے جس کا عندیہ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزیر قانون بھی دے چکے ہیں۔امید کی جا رہی ہے کہ نئی مردم شماری کی منظوری کے لئے جلد ہی مشترکہ مفادات کونسل کی میٹنگ بلائی جائے گی۔ اگر وزیراعظم کے کہے کے مطابق کونسل اس مردم شماری کی منظوری دے دیتی ہے تو پھر الیکشن التوا کا شکار ہوں گے اور یہ التوا کوئی ایک دو مہینوں کا نہیں بلکہ لمبا ہو سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر چند سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی صوبائی حکومت بھی نئی مردم شماری اور اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کو چیلنج کرنے کے لئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے، جس سے معاملہ مزید طول پکڑ جائے گا۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں یہ خدشات موجود ہیں کہ الیکشن شاید وقت پر نہ ہوں اور نگراں سیٹ اپ لمبا چلے۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومتی اتحاد ایسا نہیں چاہتا تو پھر وزیراعظم نے ایسی بات کیوں کی اور یہ بھی کہ حکومت نئی مردم شماری کی منظوری کے معاملے کو ا?ئندہ کی حکومت کے لئے کیوں نہیں چھوڑ جاتی۔ اگر شہباز شریف سب کچھ جانتے بوجھتے نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کی بات کر رہے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ اس بارے میں اْن کی بات میاں نواز شریف سے نہ ہوئی ہو۔ اگر مشترکہ مفادات کونسل 2023 کی مردم شماری کی منظوری دے دیتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ منظوری تمام وزرائے اعلیٰ بشمول پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی حمایت سے ہی ممکن ہوگی۔ ایسی صورت میں انتخابات کا التوا، چاہے وہ کتنے عرصہ کے لئے ہی ہو، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرضی سے ہی ہوگا۔ یہ کیا سیاست ہے؟ اس کے پیچھے کون کون اور کس کس کے ذاتی مفادات چھپے ہیں؟ ان سوالات کا جواب شاید ابھی کسی کو معلوم نہیں لیکن جیسا کہ وزیراعظم نے کہا اگر ویسا ہی ہوتا ہے تو پھر ان سوالوں کے جواب بھی تلاش کئے جائیں گے۔ فی الحال وقت پر انتخابات کا ہونا مشکوک ہو گیا ہے۔دریں اثنا ء الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے ابتدائی حلقہ بندیاں جاری کردیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں نشستیں 342 سے کم ہوکر 336 ہو گئی ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے حساب سے قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 266 ہوگئی ہے۔بلوچستان میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 14 سے بڑھ کر 16 ہوگئی ہے، خیبر پختونخوا میں 35 سے بڑھ کر 45 ہوگئی ہے، پنجاب کی 148 سے کم ہوکر 141 ہوگئی ہے، سندھ کی 61 برقرار ہے، وفاقی دارالحکومت کی ایک نشست بڑھ کر 3 ہوگئی ہے جبکہ فاٹا کی 12 نشستیں ختم ہوگئی ہیں۔مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے نئے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں خواتین کی نشستیں تین سے بڑھا کر 4 کردی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 8 سے 10 کردی گئی ہیں، پنجاب میں 35 سے کم کرکے 32 کردی گئی ہیں، سندھ کی 14 برقرار ہیں۔اس کے علاوہ اقلیتی نشستوں کی تعداد 10 برقرار رکھی گئی ہے۔ یوں نئی حلقہ بندیوں کے حساب سے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 342 سے کم ہوکر 336 ہوگئی ہیں۔نئی حلقہ بندیوں کے مطابق بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 65 ہوں گی جن میں سے جنرل نشستیں 51 ہوں گی، خیبر پختوانخوا اسمبلی میں مجموعی نشستیں 145 اور جنرل نشستیں115 ہوں گی، پنجاب اسمبلی میں مجموعی نشستیں 371 اور جنرل نشستیں297 ہوں گی جبکہ سندھ اسمبلی میں مجموعی نشستیں 168 اور جنرل نشستیں 130 ہوں گی۔نئی حلقہ بندیوں کے مطابق بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 65 ہوں گی جن میں سے جنرل نشستیں 51 ہوں گی، خیبر پختوانخوا اسمبلی میں مجموعی نشستیں 145 اور جنرل نشستیں115 ہوں گی، پنجاب اسمبلی میں مجموعی نشستیں 371 اور جنرل نشستیں297 ہوں گی جبکہ سندھ اسمبلی میں مجموعی نشستیں 168 اور جنرل نشستیں 130 ہوں گی۔خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 7 لاکھ 88 ہزار 933 نفوس پرمشتمل ہوگا جبکہ اسلام آباد کا قومی اسمبلی کا حلقہ 6 لاکھ 67 ہزار 789 کی آبادی پر مشتمل ہو گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب کا قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 7 لاکھ 80 ہزار 69 افراد اور سندھ کا قومی اسمبلی کا حلقہ 7 لاکھ 84 ہزار 500 افراد پر مشتمل ہو گا۔بلوچستان کا قومی اسمبلی کا حلقہ 77 ہزار 946 افراد ، خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 3 لاکھ 8 ہزار 713 آبادی پرمشتمل ہو گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ 3 لاکھ 70 ہزار336 افراد پر مشتمل ہو گا، سندھ اسمبلی کا ایک حلقہ 3 لاکھ 68 ہزار 112 افراد پر مشتمل ہو گا، بلوچستان اسمبلی کا ایک حلقہ 2 لاکھ 41 ہزار 864 کی آبادی پر مشتمل ہو گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی کا ایک حلقہ 3 لاکھ 8 ہزار 713 افراد پرمشتمل ہو گا۔الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کاپہلاحلقہ این اے1 چترال ہو گا، خیبر پختونخوا میں این اے1 سے لے کر این اے45 تک حلقیہوں گے۔اسلام آباد میں قومی اسمبلی کیحلقے این اے46 سیاین اے 48 تک ہوں گے۔ پنجاب کا پہلا حلقہ اٹک این اے 49 ہو گا، پنجاب میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 49 سے این اے 189راجن پور تک ہوں گے۔سندھ کا پہلاحلقہ این اے 190 جیک آباد جبکہ آخری حلقہ این اے 250 کراچی ہوگا۔ بلوچستان کا پہلا حلقہ این اے 251 اورآخری حلقہ این اے266ہوگا۔