نیویارک (پاکستان نیوز) نیویارک میں مسلم پولیس آفیسرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے، مسلم پولیس آفیسر کے حوالے سے PALSنامی تنظیم کا قیام میں لایا گیا ہے جس کا مقصد مسلم نوجوانوں میں پولیس میں بھرتی کے حوالے سے شعور کو اجاگر کرنا ہے، روحیل خالد کو تنظیم کا صدر منتخب کیا گیا ہے جن کی سربراہی میں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تاکہ پاکستانی امریکن میڈیا کے ذریعے مسلم نوجوانوں میں اس حوالے سے شعور کو اجاگر کیا جائے، پریس کانفرنس کے دوران مسلم والدین کو بھی پیغام دیا گیا کہ اگر ان کے نوجوان کسی بھی منشیات کی سرگرمیوں یا دیگر غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہیں تو فوری تنظیم سے رابطہ کیا جائے تاکہ ایسے نوجوانوں کی ذہنی تربیت کی جا سکے۔نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ میں پاکستانی امریکن یونیفارم پولیس آفیسرز کی تعداد پانچ سو ہے جن میں پندرہ سے بیس لیڈی پولیس آفیسرز بھی فرائض منصبی ادا کررہی ہیں۔یہ بات نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ میں پاکستانی امریکن پولیس آفیسرز کی نمائندہ تنظیم ”پاکستانی امریکن لائ انفورسمنٹ سوسائٹی” (PALS) کے صدر روحیل خالد نے یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران بتائی۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ ”PALS” کے دیگر عہدیداران وائس پریذیڈنٹ سارجنٹ اسد انور، یڑرلیفٹنٹ محمد عشرت، سارجنٹ ایٹ آرمز ،سارجنٹ فیصل اعجاز، ریکارڈنگ سیکرٹری پولیس آفیسر، سارجنٹ احتشام خان ، سارجنٹ مہراب ملہی ، سارجنٹ وقار علی ، سارجنٹ سلیمان ارسلان ، پولیس آفیسر ماجد مجید، پولیس آفیسر فہمیلا اختر بھی موجود تھے۔ روحیل خالد نے اپنے خطاب میں مزید بتایا کہ پاکستانی امریکن لاء انفورسمنٹ سوسائٹی کا قیام پانچ سال قبل عمل میں آیا جس میںہر رینک کے آفیسرز موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ کمیونٹی کے لئے بھی اپنا کردارادا کریں ، انہیں اپنے تجربے کی روشنی میں اہم امور میں مدد فراہم کریں، اس سلسلے میں تنظیم کے پلیٹ فارم سے مختلف پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔”پالز ” کے وائس پریذیڈنٹ اسد انور نے پاکستانی کمیونٹی کے والدین اور جواں سال ارکان سے کہا کہ جو بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ جوائن کرنا چاہتے ہیں ، وہ ہم سے رابطہ کریں ، ہم انہیں ہر ممکن رہنما ئی اور مدد فراہم کریں گے۔ ہم میں الحمد اللہ اب پولیس آفیسر سے لے کر ڈپٹی انسپکٹر تک ہر رینک کے آفیسرز موجود ہیں۔پولیس آفیسر احتشام خان نے خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ جواں سال بچے بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں تو ”گینگز” میں شامل ہوجاتے ہیںاور بعض منشیات کا استعمال بھی شروع کر دیتے ہیں اور ایسے کیس نیویارک کی پاکستانی کمیونٹی میں بھی سامنے آرہے ہیں۔وائس پریذیڈنٹ اسد انور کا کہنا تھا کہ قوانین تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، جیسے کہ میری جوانا کو لیگل کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا کمیونٹی کی ایسے خاندان کہ جن کے بچے گینگز اور منشیات جیسے مسائل کا شکار ہو رہے ہیں ، ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ انہیں بتا سکتے ہیں کہ کسی بھی ایسے مسائل کے شکار افراد یا خاندان کے لئے کیا کیا سہولیات و مدد موجود ہے۔ایک سوال کے جواب میں روحیل خالد نے بتایا کہ فہمیلا اختر سمیت نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بیس کے قریب پاکستانی امریکن لیڈی پولیس آفیسرز ہیں اور ”پالز ” کے وائس پریذیڈنٹ اسد انور اور ان کی اہلیہ دونوں پولیس آفیسرز ہیں۔پولیس آفیسر مہران فیاض اور اسد انور کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ ، بہترین پولیس ڈیپارٹمنٹ ہے۔ ڈیپارٹمنٹ کا ہم پر اعتماد ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہو بھی تو ”پالز ” ایک نمائندہ تنظیم کی حیثیت سے اعلیٰ حکام سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتی ہے،سارجنٹ مہتاب ملہی جو کہ نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کے سب سے بڑے گڑھ کونی آئی لینڈ کے 70پولیس سٹیشن کے سارجنٹ ہیں، کا کہنا ہے کہ امریکہ میں گھریلو تشدد کے واقعات ایک مسئلہ ہے اور ایسے واقعات ہماری کمیونٹی میںبھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس لئے کمیونٹی سے کہوں گا کہ ایسے مسائل کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے ادراک کے لئے اقدام کریں۔ اسی طرح گینگز اور منشیات جیسے مسائل سے بھی کمیونٹی اور کمیونٹی ارکان کو دور رہنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنے چاہئیں، والدین کو اہم کردار ادا کرنا چاہئے، ہم ان کی رہنمائی کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کو تیار ہیں۔لیڈی پولیس آفیسر نے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اپنے ساڑھے دس سالہ تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرا پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کام کا تجربہ بہت اچھا رہا۔ ہماری لیڈی پولیس آفیسرز ایسے بھی ہیں کہ جن کے شوہر بھی پولیس آفیسرز ہیں، انہوں نے کہا کہ جو خواتین پولیس میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتی ہیں ، وہ رہنمائی اور معلومات کے لئے ”PALS” سے رابطہ کریں،پاکستانی امریکن لائ انفورسمنٹ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ45ہزار پولیس حکام و آفیسرز پر مشتمل نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ میں پاکستانی پولیس آفیسرز کی تعداد ، ڈیپارٹمنٹ کی کل تعداد کا ایک فیصد ہے اور ان کا ہدف ہے کہ یہ تعداد آئندہ پانچ سالوں میں ایک ہزار پولیس آفیسرز تک پہنچ جائے۔