واشنگٹن (پاکستان نیوز)منی سوٹا کے شہر منی ایپلس کے ایک سابق پولیس آفیسر ڈیرک شوون کو سیاہ فام امریکی جارج فلوئیڈ کے قتل الزام میں ساڑھے بائیس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔قتل کے اس واقعہ نے کئی دہائیوں بعد امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف بڑی تعداد میں لوگوں کو احتجاج کے لیے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق استغاثہ نے تیس برس قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔جج پیٹر کیہل نے ریمارکس دیے کہ سزا کی بنیاد جذبات یا ہمدردی پر مبنی نہیں ہے۔یہ عوامی رائے پر بھی نہیں بلکہ قانون اور اس کیس سے متعلق حقائق پر مبنی ہے۔جارج فلوئیڈ کے اہل خانہ کے وکیل نے سابق پولیس افسر کو سنائی گئی سزا کو نسلی مفاہمت کی طرف ایک تاریخی قدم قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی سزا مجرموں کو جوابدہ بنا کر جارج فلوئیڈ کی فیملی اور امریکی قوم کو زخم بھرنے کے ایک قدم قریب لے آئی ہے۔منی ایپلس میں سزا سنائے جانے کی سماعت کے دوران جارج فلوئیڈ کے بھائی نے جج پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ چالیس برس کی سزا سنائی جائے۔ٹرینس فلوئیڈ نے ڈیرک شوون سے یہ بھی کہا گرفتاری کے دوران اس کے بھائی کے قتل کی وجہ بیان کرے۔کیوں؟ کیا سوچ رہے تھے جب میرے بھائی کی گردن پر گھٹنا رکھا ہوا تھا تب دماغ میں کیا چل رہا تھا؟امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ردعمل میں کہا کہ پچھلے برس غیر مسلح سیاہ فام شخص کے قتل پر سابق پولیس آفیسر کو دی گئی قید کی سزا ‘مناسب’ ہے۔یاد رہے کہ 21 اپریل کو سابق پولیس آفیسر ڈیرک شوون کو بارہ رکنی جیوری نے جارج فلوئیڈ کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔ مقدمے کی سماعت تین ہفتے جاری رہنے والی سماعت کے بعد جیوری نے سابق پولیس آفیسر کو قتل سمیت تینوں الزامات میں قصور وار قرار دیا۔