پچھلے دنوں اپنی فیملی کے ہمراہ مسجد اقصیٰ جانے کا ارادہ کیا اللہ رب العزت نے آسانی پیدا فرما دی۔ اور ہم یروشلم چلے گئے۔ جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے اقوام متحدہ نے یروشلم کو عالمی ورثہ ورلڈ ہیریٹج قرار دے کر سب کیلئے یکساں مقدس قرار دے دیا۔ جہاں اب مسجد اقصیٰ واقع ہے اس کی مشرق سائیڈ مسلمانوں کو مغرب یہودیوں کو اور جنوب عیسائیوں اور شمالی حصہ ابھی ڈائیلاگ جاری ہیں۔ ڈوم آف راک جہاں سے ہمارے پیارے نبی کا سفر معراج شروع تھا۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے اس پتھر پر حضرت اسحق علیہ السلام کی قربانی دی گئی تھی۔ کوئی یہودی ادباً اس حصے میں داخل نہیں ہوتا۔ سال کے بعد ان کا بڑا ربائی آکر کچھ دعائیں پڑھتا ہے اور چلا جاتا ہے مسجد اقصیٰ کا اندرونی نظام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے جہاں نماز، تعلیم قرآن وحدیث کیا جاتا ہے اور بیرونی سکیورٹی یہودیوں کے پاس ہے گویا کہ تین حصے کئے گئے ہیں۔ ایک حصہ اسرائیل، دوسرا حصہ فلسطین اور تیسرا حصہ یروشلم ہے جوکہ اتفاق سے تقسیم ہوچکا ہے۔ تو پھر لڑائی کیا ہے مظلوم فلسطینی عوام کے درد کی وجہ مسجد اقصیٰ نہیں ہے بلکہ جنگ کی وجہ شناخت کی بقا اور اپنی زمین کی حفاظت ہے جو آئے دن غاصب اسرائیل اپنی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر زبردستی عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا کر فلسطینیوں کی زمین پر بلڈوزر چلا کر زبردستی قبضہ کرتا چلا جارہا ہے موجودہ جنگ کا مقصد بھی یہی ہے۔ کہ غزہ کی پٹی کو ہڑپ کیا جائے چونکہ باقاعدہ فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے فلسطین کی کوئی فوج نہیں اسرائیل کے رحم وکرم پہ ہے چونکہ جس طرح ایک زمانے میں ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستان تھا۔ اسی طرح غزہ کی پٹی بھی فلسطین سے ویسٹ میں دور دراز علاقہ ہے۔ فلسطین پہلے سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر تھا۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد برطانیہ کے پاس چلا گیا چنانچہ برطانیہ نے یہ علاقہ عوام کو واپس کرنے کی بجائے اقوام متحدہ سے تین حصے کرا دیئے اور یوں1948میں اسرائیل کی بنیاد رکھ کر قبضہ جمانے کا آغاز کردیا، ہر ایک ملک کی ایک متعین سرحد اور بائونڈری ہوتی ہے لیکن اسرائیل کو کھلی چھٹی دلوا دی کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے جائو اور بائونڈری بناتے جائو یہاں تک کہ اب تک اسرائیل80فیصد تک باونڈری بنا چکا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے امریکہ و برطانیہ کی سفارش پر55فیصد اسرائیل کو45فیصد فلسطین کو دیا گیا تھا۔ مگر اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل پر کام کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں سعودی عرب عراق شام مصر اردن کے لئے خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ان ممالک کو ادراک ہو نہ ہو مگر اسرائیل امریکہ اور برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک کی مدد سے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے بہت قریب ہوچلا ہے۔ سو اے میرے بھولے بھالے مسلمان بھائیو مسجد اقصیٰ کو کوئی خطرہ نہیں اصل خطرہ یہ کہ45فیصد زمین جو اقوام متحدہ کی تقسیم ہے اس کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور فلسطینی عوام اپنی جان پر کھیل کر اپنی شناخت اور زمین بچانا چاہتے ہیں اللہ مظلوم فلسطینیوں کی غیبی مدد فرمائے(آمین)۔
٭٭٭