نیویارک ( پاکستان نیوز ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ اب پاکستان میں قانون کی عملداری نہیں رہ گئی ، میں نے ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لیے رات کو نائٹ سوٹ میں عدالت کھلوائی ، آئندہ بھی مارشل لا کو روکنے کے لیے ایسے اقدامات کرتا رہوں گا، سپریم کورٹ کے پاس غیر آئینی اقدامات یا آئین کی پامالی کو تحفظ دینے کا کوئی اختیار کبھی نہیں رہا اور اگر ججز ایسا کرتے ہیں تو یہ اْن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔امریکہ میں نیویارک بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میموگیٹ کیس ایسا نہیں تھا جو سپریم کورٹ کو لینا چاہیے تھا، وہ ایگزیکٹو کے ڈومین پر سپریم کورٹ کی جانب سے تجاوز کیا گیا، پاکستانی سفیر کو غدار ڈکلیئر کیا گیا جو کہ بلکل درست نہیں تھا منتخب وزیراعظم کو گھر بیجھا گیا یہ سب عدلیہ کا کام نہیں تھا، اس لیے ججوں کا آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ کہتے ہیں کہ عدلیہ میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت سے متعلق خط لکھنے والے 6 میں سے 5 ججوں کو میں نے تلاش کر کے اْن کی تقرری کی سفارش کی تھی، جنہیں میری عدالت کے علاوہ کہیں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تھا آج وہ بھی میرے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، میں نے ایک نوٹ لکھا تو میرے بیٹوں کا پرسنل ڈیٹا سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا، وہ ڈیٹا ایک سرکاری ادارے سے حاصل کیا گیا، میری بیوی کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن اس کے باوجود ان پر ڈاکیومنٹری بنا کر سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی، یہ سب بطور جج چیلنج ہے اور یہ ایک آزاد جج کا امتحان ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ 9 اپریل کی رات کو عدالت کھولنے کی وجہ یہ تھی کی عدم اعتماد کے وقت ملک میں مارشل لا لگانے کی باتیں کی جا رہی تھیں اور میں چاہتا ہوں جب ایسی صورت حال ہو تو تمام عدالتوں کو رات کو کھل جانا چاہیئے، کاش عدالتیں 5 جولائی کو بھی کھلی ہوتیں جب ضیائ نے منتخب وزیراعظم کوہٹایا، کاش عدالتیں 12 اکتوبر 1999ئ کو کھلی ہوتیں جب مشرف نے منتخب وزیراعظم کو باہر پھینکا، کسی نے 9 اپریل کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی ہوتی تو یہ امتحان اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہوتا کہ وہ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہوتی ہے یا نہیں۔سپریم کورٹ کے جج نے مزید کہا کہ پاکستانی قوم بہت لچک دار قوم ہے، قوم نے پچھلے 76 سالوں میں بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے، قوم نے لاقانونیت اور آمرانہ حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی ہے لیکن قوم کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے جب بیرونی دنیا ان آمرانہ حکمرانی والوں کی توثیق کرتی ہے، امریکہ کے جمہوریت کے بارے کچھ اصول ہیں، امریکہ جمہوریت کو ویلکم کرتا ہے لیکن کسی ڈکٹیٹر کو ویلکم نہیں کرتا لیکن پتہ نہیں کیا ہوا بش نے اپنے اصول بھلا کر مشرف کو ریڈ کارپٹ دیا اور بھرپور ویلکم کیا۔